ملک ڈیفالٹ کب کرتا ہے اور اسکے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟
گذشتہ کچھ عرصے کے دوران یہ بحث ہر شعبہ زندگی میں تسلسل سے جاری ہے کہ کوئی ملک ڈیفالٹ کب کرتا ہے ؟ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر 3 ارب ڈالر سے نیچے آنے کے بعد ملک کے ڈیفالٹ کرنے کی بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ لیکن اس بار کسی اور نے نہیں بلکہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک تقریب کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ ” آپ نے سنا ہو گا کہ ملک ڈیفالٹر ہو گیا ہے، یا ہونیوالا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ڈیفالٹ کر چکا ہے”۔ انہوں نے تقریر کے دوران یہ الفاظ بارہا دہرائے اسکے علاوہ انہوں نے اس کا الزام بھی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کو قرار دیا۔ جس کے بعد سنگین معاشی بحران کے شکار پاکستان کے ڈیفالٹ پر بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی۔
حالیہ عرصے میں پاکستان میں افراط زر 33 فیصد تک پہنچ چکی گئی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں ہونیوالی شدید گراوٹ اور غیر ملکی زرمبادلہ کا تاریخ کی کم ترین سطح پر آ جانا ہے۔ ملک میں مہنگائی اپنے زوروں پر ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ گیلپ کی جانب سے کئے گئے سروے میں 70 فیصد سے زائد افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آمدنی میں گزارہ نہیں کر پا رہے۔
ملک ڈیفالٹ کب کرتا ہے ؟
ماہرین معیشت کے مطابق جب کوئی بھی ملک اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی نہ کر پائے یا معاشی معاہدوں پر عمل درآمد نہ کر سکے تو ایسی صورتحال کو ڈیفالٹ کر جانا کہتے ہیں۔ اسے عرف عام میں دیوالیہ ہو جانا بھی کہا جاتا ہے۔ Blink Capital Management کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود کے نے Urdumarkets.com سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیکنیکی طور پر کوئی بھی ریاست اسوقت دیوالیہ ہوتی ہے جب اسکے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور گولڈ کے مجموعی ذخائر مل کر بھی اسکی بیرونی ادائیگیوں کے قابل نہ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسکی ایک بڑی مثال لاطینی امریکہ کے ملک ارجنٹائن کی ہے جو گذشتہ دس سال میں دو بار ڈیفالٹ کر چکا ہے۔
ڈیفالٹ کر جانے کے اثرات
بطور ریاست ڈیفالٹ کر جانے کے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے BCM کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں دیوالیہ ہو جانے والے ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت زیادہ گر جاتی ہے۔ اور عالمی معاشی اداروں اور دوسرے ممالک کی طرف سے نہ صرف قرض کی سہولت نہیں ملتی بلکہ پہلے سے دی گئی رقومات کی واپسی کا بھی تقاضہ کر دیا جاتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں اسکے ریاستی اثاثوں کو ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسکی سنگین ترین صورتحال میں تجارتی مال کی ضبطگی بھی شامل ہے۔ ” ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیاد پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہنگری اور کچھ عرصہ قبل ارجنٹائن میں ہوا۔ ان کی کرنسی اس قدر بے قدر ہو گئی تھی کہ نوٹ سڑکوں پر بکھرے رہتے تھے اور لوگ ان پر چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اشیائے ضروریہ کی خریداری کے وقت کرنسی نوٹ گننے کی بجائے انہیں تولا جاتا تھا”۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق ڈیفالٹ ڈیکلیئر کئے جانے کے بعد اس ملک میں کہیں پر بھی قیمتیں یکساں نہیں رہتیں اور اسکی کریڈٹ ریٹنگ انتہائی منفی ہو جاتی ہے۔
ڈیفالٹ کرنے کی معاشی علامات کیا ہوتی ہیں ؟
ڈیفالٹ کر جانے سے پہلے کسی ملک کے پاس موجود زرمبادلہ انتہائی کم سطح پر پہنچ جاتا ہے اور اسکے حکومتی اداروں کا Current Account Deficit تشویشناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں اسکے بانڈز کی قدر اسکی حقیقی قدر سے نصف رہ جاتی ہے۔ حسن مقصود کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس لئے بڑھتا ہے کہ اسکے ٹریڈ بیلینس کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ درآمدی حجم زیادہ اور اسکے مقابلے میں برآمدات کم ہو جاتی ہیں۔ تجارتی خسارہ بڑھنے کا براہ راست اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے۔ یوں اسکی معیشت غیر ملکی ادائیگیاں کرنے کی طاقت کھو دیتی ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ تر امکانات یہی ہوتے ہیں کہ وہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا۔ تاہم یہ اس کے قرض خواہوں پر منحصر ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
حال ہی میں جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا کے ساتھ بھی یہ صورتحال پیش آ چکی ہے۔ ڈیفالٹ کرنے سے مراد معاشی تنہائی نہیں ہوتا بلکہ عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک ایک طے شدہ میکانزم کے تحت اسے دوبارہ کھڑا ہونے میں مدد کرتے ہیں۔ جیسا کہ سری لنکن، ارجنٹائن اور وینزویلا کے مالیاتی نظام بکھرنے پر عالمی برادری کی طرف سے اسے دوبارہ معاشی ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لئے دی جانیوالی امداد تھا۔
کیا پاکستان ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ؟
معاشی ماہرین کے مطابق ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی بھی غیر ملکی ادائیگی روکی نہیں گئی۔ لیکن اس کی طرف سے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کو گذشتہ چار سالوں کے دوران تین بار قرضے ری شیڈول کرنے کا کہا گیا اور ان ممالک نے بھی پاکستان کو دیوالیہ قرار دینے کی بجائے فراخدلانہ طور پر قرضے ری-شیڈول کئے گئے۔ تاہم موجودہ عالمی معاشی بحران کے تناظر میں یہ ممالک اپنی امداد کو عالمی مالیاتی اداروں کے پروگرام کی بحالی سے منسلک کر چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر IMF پروگرام بحال ہو گیا تو پاکستان کے قریبی دوست ممالک سے اسے نہ صرف قرضوں کی ری۔اسٹرکچرنگ کی سہولت واپس مل جائے گی بلکہ 12 سے 15 ارب ڈالر کے اضافی پیکیجز بھی حاصل ہو جائیں گے۔ جس سے فوری طور پر اس کے سر ہر لٹکتی ہوئی ڈیفالٹ کی تلوار ہٹ جائے گی۔ تاہم پروگرام بحال نہ ہونے سے صورتحال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق گذشتہ 24 سالوں کے دوران تین بار پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے بالکل قریب پہنچا تاہم عین وقت پر چین اور سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی امداد نے اسے بحران سے نمٹنے میں مدد دی۔
اگرچہ اسوقت پاکستان کی معاشی صورتحال سنگین خطروں سے دوچار ہے اور اپنے مسائل میں الجھے اسکے دوست ممالک بھی قرضوں کی واپسی کیلئے IMF پروگرام کے گرین سگنل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور اب کی بار ایسا لگ رہا ہے کہ معاشی اصلاحات اور ریونیو میں اضافہ، دونوں اہداف کو حاصل کرنا پڑے گا ورنہ عالمی مارکیٹ میں اسکے یورو بانڈز کی قدر میں ہونیوالی کمی سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ قطعی طور پر موافق حالات کی نشاندہی نہیں کر رہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔