پاکستانی روپے میں شدید گراوٹ، USDPKR کو کیا ہو گیا ہے ؟

پاکستانی روپے کی قدر میں شدید گراوٹ واقع ہوئی ہے جبکہ USDPKR تاریخ کہ بلند ترین سطح 285 روپے پر آ گیا۔ تفصیلات کے مطابق آج پاکستانی فاریکس ٹریڈ کے آغاز پر امریکی ڈالر کی قدر میں 19 روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح پاکستانی روپے ایک ہی دن میں 7 فیصد کمی کا نیا ریکارڈ قائم ہو گیا۔تاہم مارکیٹ کے اختتامی لمحات میں پاکستانی روپیہ 283 پر بند ہوا

پاکستانی روپے کی گراوٹ، وجوہات کیا ہیں ؟

پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے برطانوی نشریاتی ادارے BBC سے بات کرتے ہوئی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کے معاشی پروگرام میں تاخیر اور ڈالر کی غیر قانونی ترسیل کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں بھی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر کی تشویشناک سطح پر نہیں ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں ایک افراتفری کا عالم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے بطور ریاست ڈیفالٹ کی خبریں سرمائے کے انخلاء کا باعث بن رہی ہیں۔ ملک بوستان نے کہا کہ جب کسی بھی ملک کی حکومت درآمدی کمپنیوں کو ڈالر کا انتظام کرنے کا کہے گی تو اسکی بلیک مارکیٹنگ شروع ہو جائے گی۔

معاشی تجزیہ کار اور Blink Capital Management کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود نے Urdumarkets.com سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈالر کی ہمسایہ ممالک کو غیر قانونی ترسیلات روکنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) 35 فیصد پر پہنچنے کے بعد ملک سے غیر ملکی سرمائے کا انخلاء ملک کو ایک نئے بحران کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

حسن مقصود کے مطابق روپے کی قدر میں گراوٹ سے افراط زر میں اضافے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں اور صنعتکاروں کو ڈالر کا انتظام ذاتی طور پر کرنے کی اجازت دینا بلیک مارکیٹنگ کو دعوت دینا ہے۔ BCM کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ پاکستان کیلئے کسی بیل آؤٹ پیکج کے اجراء تک یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ ان نے یہ بھی کہا کہ ابھی عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے معاہدے کی تجدید کا اعلان نہیں کیا گیا۔ یہی غیر یقینی صورتحال مارکیٹ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کی نئی شرائط

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ نے BBC کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ IMF کی نئی شرائط کے مطابق ہو رہا ہے۔ جس کے تحت IMF پاکستان میں وہی ریٹ چاہتا ہے جس پر گرے مارکیٹ یا افغان ٹریڈ ہو رہی ہے۔ اسکی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ٹریڈ گرے مارکیٹ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اگر 10 کروڑ ڈالر روزانہ سسٹم سے نکل جائیں تو ملکی کرنسی پر دباؤ آنا ایک فطری عمل ہے

BCM کے سربراہ کے مطابق IMF کے علاوہ چند دیگر عوامل بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں، جن میں زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر، منفی معاشی رپورٹس اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کے جاری کردہ یورو بانڈز کی قدر میں مسلسل کمی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار بڑھنے کے بعد ڈالر مستقبل قریب میں نیچے نہیں آئے گا کیونکہ عالمی ایجنسیز پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں مسلسل کمی کر رہی ہیں۔

حسن مقصود نے کہا کہ ڈالر صرف 100 ٹریڈنگ پوائنٹس مہنگا ہونے کا مطلب عوام کی قوت خرید میں 285 روپے کی کمی ہے۔ کیونکہ اس سے ملک کے قرض میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

گذشتہ روز پاکستان کی CPI رپورٹ کے اعداد و شمار گذشتہ 48 سال میں پہلی بار 35 فیصد پر پہنچ گئے ہیں۔ آج جاتی ہونیوالی ٹریڈ رپورٹ کے بعد مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں شدید اضافہ ہوا، آنیوالے دنوں میں اسکی ذخیرہ اندوزی میں بھی مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں ملک کے معاشی اعشاریوں (Financial Indicators) پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اگرچہ آج دن کا اختتام مثبت ہوا لیکن گذشتہ دو ہفتوں کے دوران KSE100 انڈیکس میں 14 سو پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مارکیٹ کیپیٹیلائزیشن میں 10 ارب روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button