کیا ملٹی نیشنل بینکوں کا ڈیفالٹ پاکستان جیسے ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے ؟
گذشتہ چند دو ہفتوں کے دوران امریکہ کے تین ملٹی نیشنل بینکوں بالخصوص سلیکون ویلی بینک ڈیفالٹ ہونے کے بعد عالمی بینکنگ اسٹاکس میں تاریخی گراوٹ واقع ہوئی جاپان اور سوئٹزرلینڈ کی اسٹاک مارکیٹس میں پہلی بار ٹریڈنگ معطل رہی جسے ٹیکنیکی اعتبار سے کریش کر جانا کہتے ہیں۔ یہاں تک کو امریکی سینیٹ نے بھی اس حوالے سے مکمل تحقیقات کا مطلبہ کیا .
عالمی بینکاری نظام کو کیا ہو گیا ہے ؟
رواں ماہ کے آغاز میں امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے کرپٹو فرینڈلی سلور گیٹ بینک نے اپنی سالانہ معاشی رپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد عالمی بینکنگ اسٹاکس کی قدر میں شدید گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ ریگولیٹری اداروں کے دباؤ پر بینک نے سرمایہ کاروں کے فنڈز جزوی طور پر واپس کرنے کااعلان کیا۔ اسکے چند روز بعد کیلیفورنیا سے ہی تعلق رکھنے والے سگنیچر اور سلیکون ویلی بینک نے بھی اسی انداز میں اپنے صارفین سے معذرت کر لی۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سلیکون ویلی بینک (SVB) ٹیکنالوجی کمپنیز کو مالی معاونت فراہم کرنیوالا دنیا کا سب سے بڑا معاشی ادارہ مانا جاتا ہے۔ اس پیشرفت کے بعد نہ صرف دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے کھربوں ڈالرز مالیت کے فنڈز بینکوں سے نکالنے شروع کر دیئے۔ بلکہ جاپان سے لے کر امریکہ تک ان بینکوں کی اسٹاک ویلیو میں بھی شدید مندی دیکھنے میں آئی۔ بینکس کے شیئرز کی قدر میں گراوٹ عالمی مارکیٹس کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔
سرمایہ کار بینکاری نظام میں 2008ء کی طرز پر کساد بازاری (Recession) کے خوف میں مبتلا ہیں۔ جس کے بعد امریکی حکام نے صارفین کے ڈیپازٹس کو محفوظ بنانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جاپان سے لے کر آسٹریلیا اور اٹلی سے امریکہ تک اسٹاکس میں مسلسل فروخت جاری ہے۔ Credit Suisse دنیا کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ جس کے صارفین کی تعداد کئی ملیئن ہے۔ محض دو روز میں اگر swiss نیشنل بینک مداخلت نہ کرتا تو یو ممکنہ طور پر دیوالیہ ہونیوالا چوتھا بینک تھا.
امریکی ملٹی نیشنل بینکوں کے دیوالیہ ہونے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے قوم سے خطاب میں بینکاری نظام اور سرمایہ کاروں کے ڈیپازٹس کی مکمل حفاظت کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے ڈیفالٹ کرنیوالے اداروں کے فنڈز تک مکمل رسائی کا بھی وعدہ کیا۔ امریکی صدر کی یقین دہانی کے باوجود سرمایہ کاروں کو خوف ہے کہ دیوالیہ ہونیوالے بینکوں کہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ لہر ممکنہ طور پر پورے عالمی مالیاتی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسی وجہ سے بینکنگ سیکٹر شدید مندی کا شکار ہے بینکنگ اسٹاکس میں شدید فروخت کے رجحان سے عالمی سطح پر تمام مارکیٹس متاثر ہوئی ہیں۔
جاپانی Topix انڈیکس مجموعی طور پر 10 فیصد سے زائد مندی کا شکار ہوا۔ جاپانی بینکوں کے لئے گذشتہ دو روز ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔ انکی ڈیپازٹس میں 20 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ معاشی ماہرین کے خیال میں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کئی جاپانی بینک سرمائے کی کمی سے دیوالیہ کر سکتے ہیں۔ کیلیفورنیا کے کرپٹو بینک سے شروع ہونیوالا اسکینڈل یورپ میں داخل ہو چکا ہے۔ اور کریڈٹ سوئس کے بعد کئی بڑے عالمی ادارے اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
پاکستانی قارئین کیلئے یہ اصطلاح نئی نہیں ہے کیونکہ چند ماہ کے دوران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر نیچے آنے سے بارہا اسکے دیوالیہ ہونے کا ذکر کیا گیا۔ ملک کے طول و عرض میں یہ بحث ہر شعبہ زندگی میں تسلسل سے جاری ہے کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ حقیقی طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے؟
عالمی بینکنگ بحران امریکہ سے یورپ پہنچنے اور کریڈٹ سوئس بینک کے ممکنہ طور ہر دیوالیہ ہونے کی خبروں کے بعد پاکستان کے بارے میں بھی یہ بحث دوبارہ شروع ہو گئی. پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر 3 ارب ڈالر سے نیچے آنے کے بعد یہ تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ ملک عملی طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس بار کسی اور نے نہیں بلکہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک تقریب کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ ” آپ نے سنا ہو گا کہ ملک ڈیفالٹر ہو گیا ہے، یا ہونیوالا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ڈیفالٹ کر چکا ہے”۔
انہوں نے تقریر کے دوران یہ الفاظ بارہا دہرائے اسکے علاوہ انہوں نے اس کا الزام بھی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کو قرار دیا۔ جس کے بعد سنگین معاشی بحران کے شکار پاکستان کے ڈیفالٹ اسٹیٹس پر بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ حالیہ عرصے میں پاکستان میں افراط زر 33 فیصد تک پہنچ چکی گئی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں ہونیوالی شدید گراوٹ اور غیر ملکی زرمبادلہ کا تاریخ کی کم ترین سطح پر آ جانا ہے۔ ملک میں مہنگائی اپنے زوروں پر ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ گیلپ کی جانب سے کئے گئے سروے میں 70 فیصد سے زائد افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آمدنی میں گزارہ نہیں کر پا رہے۔
کوئی ملک یا ادارہ ڈیفالٹ کب کرتا ہے ؟
ماہرین معیشت کے مطابق جب کوئی بھی ملک یا ادارہ اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی نہ کر پائے یا معاشی معاہدوں پر عمل درآمد نہ کر سکے تو ایسی صورتحال کو ڈیفالٹ کر جانا کہتے ہیں۔ اسے عرف عام میں دیوالیہ ہو جانا بھی کہا جاتا ہے۔ Blink Capital Management کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود نے Urdumarkets.com سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا
” ٹیکنیکی طور پر کوئی بھی ریاست یا ادارہ اسوقت دیوالیہ ہوتا ہے جب اسکے غیر ملکی زر مبادلہ اور گولڈ کے مجموعی ذخائر مل کر بھی بیرونی ادائیگیوں یا معاشی مطالبات پورے کرنے کے قابل نہ رہیں اسکی ایک بڑی مثال لاطینی امریکہ کے ملک ارجنٹائن کی ہے جو گذشتہ دس سال میں دو بار ڈیفالٹ کر چکا ہے”۔
ڈیفالٹ کر جانے کے اثرات
بطور ریاست ڈیفالٹ کر جانے کے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے BCM کے چیف ایگزیکٹو اور معاشی تجزیہ کار حسن مقصود کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں دیوالیہ ہو جانے والے ادارے یا ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت زیادہ گر جاتی ہے۔ اور عالمی معاشی اداروں اور دوسرے ممالک کی طرف سے نہ صرف قرض کی سہولت نہیں ملتی بلکہ پہلے سے دی گئی رقومات کی واپسی کا بھی تقاضہ کر دیا جاتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں اسکے ریاستی اثاثوں کو ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔
سنگین ترین صورتحال میں تجارتی مال کی ضبطگی بھی شامل ہے۔ تاہم کسی معاشی ادارے کے ڈیفالٹ کا نتیجہ اثاثوں اور امانتوں کی واپسی ہے جیسا کہ ہم نے سلیکون ویلی بینک کے معاملے میں دیکھا کہ سرمایہ کار اسے وقت دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں اور سرمائے کا انخلاء اتنا زیادہ ہوا ہے کہ بینک کے ادا شدہ سرمائے (Paidup Capital) سے زیادہ مطالبات کئے جا رہے ہیں۔
ایسا ہی معاملہ سری لنکا کے ساتھ بھی ہوا ” ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیاد پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہنگری اور کچھ عرصہ قبل ارجنٹائن میں ہوا۔ ان کی کرنسی اس قدر بے قدر ہو گئی تھی کہ نوٹ سڑکوں پر بکھرے رہتے تھے اور لوگ ان پر چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اشیائے ضروریہ کی خریداری کے وقت کرنسی نوٹ گننے کی بجائے تولے جاتے تھے”۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق ڈیفالٹ ڈیکلیئر کئے جانے کے بعد اس ملک میں کہیں پر بھی قیمتیں یکساں نہیں رہتیں اور اسکی کریڈٹ ریٹنگ انتہائی منفی ہو جاتی ہے۔
ڈیفالٹ کرنے کی معاشی علامات کیا ہوتی ہیں ؟
ڈیفالٹ کر جانے سے پہلے کسی ملک کے پاس موجود زرمبادلہ انتہائی کم سطح پر پہنچ جاتا ہے اور اسکے حکومتی اداروں کا Current Account Deficit تشویشناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں اسکے بانڈز کی قدر اسکی حقیقی قدر سے نصف رہ جاتی ہے۔ حسن مقصود کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس لئے بڑھتا ہے کہ اسکے ٹریڈ بیلینس کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ درآمدی حجم زیادہ اور اسکے مقابلے میں برآمدات کم ہو جاتی ہیں۔ تجارتی خسارہ بڑھنے کا براہ راست اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے۔ یوں اسکی معیشت غیر ملکی ادائیگیاں کرنے کی طاقت کھو دیتی ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ تر امکانات یہی ہوتے ہیں کہ وہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا۔ تاہم یہ اس کے قرض خواہوں پر منحصر ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
حال ہی میں جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا کے ساتھ بھی یہ صورتحال پیش آ چکی ہے۔ ڈیفالٹ کرنے سے مراد معاشی تنہائی نہیں ہوتا بلکہ عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک ایک طے شدہ میکانزم کے تحت اسے دوبارہ کھڑا ہونے میں مدد کرتے ہیں۔ جیسا کہ سری لنکن، ارجنٹائن اور وینزویلا کے مالیاتی نظام بکھرنے پر عالمی برادری کی طرف سے اسے دوبارہ معاشی ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لئے دی جانیوالی امداد تھی۔
کیا پاکستان ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ؟
معاشی ماہرین کے مطابق ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی بھی غیر ملکی ادائیگی روکی نہیں گئی۔ لیکن اس کی طرف سے سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کو گذشتہ چار سالوں کے دوران تین بار قرضے ری شیڈول کرنے کا کہا گیا اور ان ممالک نے بھی پاکستان کو دیوالیہ قرار دینے کی بجائے فراخدلانہ طور پر قرضے ری-شیڈول کر دیئے تھے۔ تاہم موجودہ عالمی معاشی بحران کے تناظر میں یہ ممالک اپنی امداد کو عالمی مالیاتی اداروں کے پروگرام کی بحالی سے منسلک کر چکے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر IMF پروگرام بحال ہو گیا تو پاکستان کے قریبی دوست ممالک سے اسے نہ صرف قرضوں کی ری۔اسٹرکچرنگ کی سہولت واپس مل جائے گی بلکہ 12 سے 15 ارب ڈالر کے اضافی پیکیجز بھی حاصل ہو جائیں گے۔ جس سے فوری طور پر اس کے سر ہر لٹکتی ہوئی ڈیفالٹ کی تلوار ہٹ جائے گی۔ تاہم پروگرام بحال نہ ہونے سے صورتحال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق گذشتہ 24 سالوں کے دوران تین بار پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے بالکل قریب پہنچا تاہم عین وقت پر چین اور سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی امداد نے اسے بحران سے نمٹنے میں مدد دی۔
اگرچہ اسوقت پاکستان کی معاشی صورتحال سنگین خطروں سے دوچار ہے اور اپنے مسائل میں الجھے اسکے دوست ممالک بھی قرضوں کی واپسی کیلئے IMF پروگرام کے گرین سگنل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور اب کی بار ایسا لگ رہا ہے کہ معاشی اصلاحات اور ریونیو میں اضافہ، دونوں اہداف کو حاصل کرنا پڑے گا ورنہ عالمی مارکیٹ میں اسکے یورو بانڈز کی قدر میں ہونیوالی کمی سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ قطعی طور پر موافق حالات کی نشاندہی نہیں کر رہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔