سوئس نیشنل بینک کی مانیٹری پالیسی اور افراط زر کی صورتحال
سوئس نیشنل بینک 23 مارچ کو مانیٹری پالیسی کا اعلان کرنیوالا یے۔ یہ فیصلہ سوئس فرانک کی سمت کا تعین کرے گا۔ واضح رہے کہ SNB سال مں صرف چار بار پالیسی کا اعلان کرتا ہے یعنی ماہانہ کی بجائے کوارٹرلی بنیادوں پر۔ دنیا کی مضبوط ترین بینکنگ انڈسٹری کا حامل یہ یورپی ملک حالیہ دنوں میں ریکارڈ افراط زر (Inflation) لپیٹ میں ہے۔
اسکے علاوہ امریکہ سے شروع ہونیوالا بینکنگ بحران اپنی پوری شدت سے کریڈٹ سوئس بینک پر حملہ آور ہوا جس کے بعد سوئٹزرلینڈ کے معاشی اعشاریے (Financial Indicators) بدترین منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سوئس مارکیٹ انڈیکس (SMI) میں 1 ہزار سے زائد پوائنٹس کی گراوٹ نظر آئی۔ جبکہ اس کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن میں 5 فیصد کے قریب کمی واقع ہوئی۔
سرمائے کا سب سے زیادہ انخلاء بینکنگ سیکٹر اسٹاکس میں ہوا۔ جن میں کریڈٹ سوئس بینک (Credit Suisse) کے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر آنے کے بعد 40 فیصد مندی ریکارڈ کی گئی۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ کریڈٹ سوئس بینک کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر سعودی نیشنل بینک ہے۔ جس کے مزید مالی معاونت سے انکار سے سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمائے کا وسیع پیمانے پر انخلاء شروع ہوا۔ یہاں تک کہ سوئس مرکزی بینک (SNB) نے 53 ارب ڈالر کی فائنانشل سپورٹ سے اسے دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو جدید سوئس تاریخ میں پہلی بار کوئی معاشی ادارہ ڈیفالٹ کر جاتا۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ کریڈٹ سوئس کا بحران سارے عالمی نظام زر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا۔ جس سے بڑے معاشی اداروں کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک بھی یقینی طور پر ڈیفالٹ کر سکتے تھے۔ SMI کے علاوہ سوئس فرانک کی قدر میں بھی شدید کمی دیکھنے میں آئی۔ جبکہ اسکے مقابلے میں امریکی ڈالر (USDCHF) رواں سال کی بلند ترین سطح 0.9400 کے قریب پہنچ گیا۔ لیکن اختتام ہفتہ پر مرکزی بینک کی مداخلت (Open Market Interference) کے نتیجے میں یہ دوبارہ 0.9300 سے نیچے آ گیا۔
متوقع مانیٹری پالیسی اور مارکیٹ کا ردعمل
سوئٹزرلینڈ رواں سال کے آغاز سے ہی افراط زر کی لپیٹ میں ہے۔ فروری میں یہ شرح 3.4 فیصد سالانہ پر آ گئی۔ جو کہ 2008ء کے بعد 15 سال کی بلند ترین سطح ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو (Fed), بینک آف انگلینڈ (BOE) اور دیگر سینٹرل بینکس کے برعکس اسکی پالیسی ساز کمیٹی سال میں چار بار پالیسی کا اعلان کرتی ہے۔ جو کہ پورے کوارٹر میں نافذ العمل رہتی ہے۔ اسی بناء پر سوئس بینکاری نظام دنیا کا مستحکم ترین سسٹم مانا جاتا ہے۔
گذشتہ سال یوکرائن پر روسی حملے کے بعد طاقتور ممالک کے مرکزی بینکوں کے مقابلے میں SNB نے محض 175 بنیادی پوائنٹس شرح سود میں اضافہ کیا۔ جبکہ اس عرصے کے دوران یورپی سینٹرل بینک 350 اور امریکی فیڈرل ریزرو (Fed) مجموعی طور پر ٹرمینل ریٹس میں 475 پوائنٹس بڑھا چکے ہیں۔ اگرچہ سوئس کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) دنیا بھر میں اسوقت بھی سب سے کم ہے تاہم اس نے 3.4 فیصد کا ہندسہ تاریخ میں پہلی بار چھوا ہے۔ اسی کے باوجود معاشی ماہرین کیش ریٹس میں اوسط درجے (50 پوائنٹس) تبدیلی کی پیشگوئی کر رہے ہیں کیونکہ عالمی بینکنگ اور ترسیل زر (Swift Banking) کا مرکز ہونے کی وجہ سے اسکا سسٹم بھی بڑے رسک فیکٹر سے دوچار ہے۔
اپنے مضبوط معاشی نظام کو متوازن رکھنے کے لئے مرکزی بینک شائد پالیسی ریٹس میں تو دیگر بینکوں کی نسبت کم اضافہ کرے تاہم جاپانی مرکزی بینک (BOJ) کی طرح متبادل مانیٹری ٹولز کے استعمال سے افراط زر کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے تا کہ شرح نمو (گروتھ ریٹ) بھی مثبت ریے اور معاشی اعشاریوں کو بھی مستحکم رکھا جا سکے۔ تاہم مانیٹری پالیسی سامنے آنے تک سوئس فرانک اور مارکیٹ انڈیکس محدود رینج میں اتار چڑھاؤ کے شکار رہیں گے۔
توقعات سے کم شرح سود سے SMI پر مثبت اثرات مرتب ہوں سکتے ہیں اور سوئس فرانک بیک فٹ پر آ سکتا ہے جبکہ توقعات سے زیادہ اضافہ اسٹاکس کو دباؤ اور کرنسی کو جارحانہ موڈ میں لا سکتا ہے۔ تاہم حتمی ڈائریکشن کا تعین SNB کے فیصلے کے بعد ہونے کا امکان ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔