امریکی مانیٹری پالیسی اور مارکیٹس پر متوقع اثرات
امریکی مانیٹری پالیسی کا اعلان اعلان آج کیا جائے گا اسکا فیصلہ FOMC کی جاری میٹنگ کے اختتام پر پبلش ہو گا۔ جس کے آدھے گھنٹے کے بعد چیئرمین فیڈ پریس کانفرنس میں پالیسی ساز اراکین کمیٹی اجلاس کی تفصیلات اور مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ شرح سود (Interest rate) میں اضافے کا اعلان گزشتہ روز سے جاری اجلاس کے اختتام پر آج عالمی معیاری وقت کے مطابق 18.00 بجے (پاکستانی وقت کے رات 23.00 بجے) ہو گا۔
حالیہ دنوں میں عالمی بینکنگ بحران کے بعد FOMC کا فیصلہ اور چیئرمین فیڈ کی پریس کانفرنس انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ اس سے قبل دیوالیہ ہونے والے تینوں امریکی بینکس شرح سود میں مسلسل اضافے اور مارجن لیولز کم ہونے سے مالی مشکلات کے شکار ہوئے۔ اسکے علاوہ امریکہ میں افراط زر میں واضح طور پر کمی آئی ہے جس کے باوجود گذشتہ سات بار کی طرح ٹرمینل ریٹس میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھنے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔
جیروم پاول رواں ماہ امریکی سینیٹ میں تقریر کے دوران افراط زر کنٹرول کرنے کے لئے جارحانہ پالیسی جاری رکھنے کا اعادہ کر چکے ہیں لیکن اس کے بعد امریکی ریاست کیلیفورنیا سے شروع ہونیوالا بینکنگ کرائسز یورپ تک پہنچ گیا۔ جس سے اوپن مارکیٹ کمیٹی اپنا نقطہ نظر تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ کیونکہ مارجن لیولز کے بغیر معاشی ادارے مشکلات کے شکار رہیں گے۔
آمریکی مانیٹری پالیسی کی اہمیت
امریکی مانیٹری پالیسی کے اثرات نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی سطح پر ہر معاشی سرگرمی پر مرتب ہوتے ہیں جس کی بنیادی وجہ عالمی مالیاتی نظام میں امریکی ڈالر (USD) کی حکمرانی ہے۔ دنیا بھر کی کرنسیز، کماڈٹیز ، ڈیجیٹل اثاثوں اور اسٹاکس کی قدر کا تعین امریکی ڈالر کے ساتھ تقابلے سے کیا جاتا ہے یعنی عالمی مالیاتی نظام میں امریکی ڈالر بنیادی اکائی کی حثیت رکھتا ہے۔ شرح سود میں اضافے سے دیگر ممالک کیلئے Exchange Cut rates میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور ڈالر کے مد مقابل دیگر کرنسیز دباؤ کی شکار ہو جاتی ہیں۔
اس صورتحال میں ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ باقی ممالک بھی شرح سود میں اضافہ کریں یا پھر اپنی کرنسیز کی قدر میں گراوٹ کے لئے تیار ہو جائیں۔ یوکرائن جنگ کے بعد پیدا ہونیوالے عالمی معاشی بحران (Global Financial Crisis) کے بعد افراط زر کی انتہائی بلند شرح کنٹرول کرنے کے لئے فیڈرل ریزرو نے سات بار شرح سود میں اضافہ کیا جبکہ یورپی مرکزی بینک رواں ہفتے کے دوران پانچویں بار ایسا کر چکا ہے۔اس کے علاوہ آسٹریلوی مرکزی بینک (RBA) چار مرتبہ اپنی مانیٹری پالیسی کو تبدیل کر چکا ہے۔ تاہم نیوزی لینڈ اور سوئس نیشنل بینک نے صرف دو بار شرح سود میں اضافہ کیا ہے
دنیا کی اہم ترین معیشت جاپان نے اس تمام عرصے میں نرم مانیٹری پالیسی اختیار بھی کئے رکھی۔ جاپانی کرنسی ین (JPY) کسی حد تک گراوٹ کی بھی شکار ہوئی اور بینک آف جاپان کے سابق سربراہ ہارو ہیکو کروڈا ہدف تنقید بھی بنے رہے۔ تاہم انہوں نے موثر مانیٹری ٹولز کے ذریعے صورتحال کو کنٹرول کر لیا۔ جاپانی مرکزی بینک کے سربراہ نے ترکی کے Monetary Model کو اپنائے رکھا۔ جس میں ترکش لیرا کی گراوٹ ایک خاص لیول پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم حتمی نتائج نے اسے غلط ثابت کیا۔
عالمی مارکیٹس کا متوقع ردعمل
گذشتہ ہفتے توقعات کے مطابق امریکی CPI رپورٹ کے بعد امریکی ڈالر شدید گراوٹ کا شکار ہوا۔ ڈالر انڈیکس (DXY) میں کمی کی دوسری بڑی وجہ نظام زر کی مشکلات ہیں۔ اگر آج فیڈرل ریزرو نے توقعات کے مطابق 50 کی بجائے 25 بنیادی پوائنٹس شرح سود میں اضافے کا اعلان کیا تو 10 مارچ سے جاری صورتحال آج شام کو بھی جاری رہے گی۔ یعنی ڈالر انڈیکس (DXY) اور امریکی محکمہ خزانہ کے بانڈز (Treasury Bonds) کی قدر میں کمی، جس کے بعد اسٹاکس، کرپٹو کرنسیز اور کماڈٹیز بالخصوص گولڈ کی طلب (Demand) میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس فیصلے سے یورو (EUR)، برطانوی پاؤنڈ (GBP) , جاپانی ین (JPY) اور سوئس فرانک (CHF) میں آنیوالی تیزی کی لہر امریکی ڈالر سے اپنی کھوئی ہوئی قدر کے کئی لیولز چھین لیں گے۔ لیکن توقعات کے کے برعکس سخت مانیٹری پالیسی سے ڈالر جارحانہ انداز اختیار کر جائے گا۔ اعلان کے بعد سربراہ فیڈرل ریزرو کی پریس کانفرنس میں مستقبل کا روڈمیپ مارکیٹ کے موڈ کا تعین کرے گا۔
عالمی مارکیٹس میں سرمایہ کاروں کی اکثریت آج مانیٹری پالیسی کے انتظار میں محتاط انداز کئے ہیں اور محدود رینج میں ٹریڈ جاری ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔