یورپی اسٹاکس میں مثبت رجحان۔ افراط زر کے رسک فیکٹر میں کمی
یورپی اسٹاکس میں مثبت رجحان کے ساتھ ٹریڈ جاری ہے۔ افراط زر میں کمی کی پیشنگوئیوں اور امریکی ڈیبٹ سیلنگ میں اضافے کی اطلاعات اور مذاکرات کی ممکنہ کامیابی سے عالمی اسٹاکس ( Global Stocks) کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے اثرات یورپی مارکیٹس پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم سوئس مارکیٹ انڈیکس (SMI) میں منفی ڈیپازٹ رپورٹس کے زیر اثر مندی نظر آ رہی ہے۔ ان کے علاوہ یورپی کمپنیوں جیسا کہ وال مارٹ کی ارننگ رپورٹس سے بھی اسٹاکس میں تیزی واقع ہوئی ہے۔
افراط زر میں کمی کے یورپی اسٹاکس پر اثرات
آج یورپی یونین کی Inflation Forecast جاری کی گئی ہے۔ جس کے مطابق 2023ء میں افراط زر کی سالانہ شرح 5.8 جبکہ 2024ء میں 2.5 فیصد کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اس طرح دوہرے ہندسے پر پہنچنے کے بعد افراط زر میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ جس سے GDP میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ انفلیشن رسک فیکٹر کے محدود ہونے سے اسٹاکس کی طلب (Demand) میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی ڈیبٹ کرائسز پر کامیاب مذاکرات
امریکی ڈیبٹ کرائسز پر ہونیوالے مذاکرات میں بریک تھرو کی اطلاعات پر عالمی مارکیٹس میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اسٹاکس میں بھرپور سرمایہ کاری ریکارڈ کی گئی یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی ڈالر کی طلب (Demand) میں اضافے کے باوجود بھی اسٹاکس میں خریداری کی بڑی لہر نظر آ رہی ہے۔
کیا امریکی ڈیبٹ کرائسز ختم ہو رہا ہے ؟
امریکی قرض کی حد یعنی U.S Debit Ceiling پر پائی جانیوالی بے یقینی گذشتہ ایک ماہ سے عالمی مارکیٹس میں سرمایہ کاروں کو US Default Fears میں مبتلا کئے ہوئے تھی۔ اس سلسلے میں گذشتہ ہفتے ہونیوالے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد عالمی اسٹاکس اور کماڈٹیز سے سرمائے کا بڑے پیمانے پر انخلاء شروع ہو گیا تھا تاہم گذشتہ روز جو بائیڈن اور ریپبلکنز کے درمیان بات چیت کا دوسرا راؤنڈ ہوا۔
جس کے اختتام پر دونوں جانب سے مثبت بیانات دیئے جا رہے ہیں اور بڑے بریک تھرو کی توقع پیدا ہوئی ہے۔ امریکی سینیٹ کے نئے اسپیکر کیون میکارتھی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ جس کا نظام مضبوطی سے قائم ہے۔ معاملات حل کرنے کیلئے ہم اکھٹے کام کر رہے ہیں”۔
امریکی اسپیکر کے اس بیان کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان کی سابقہ اسپیکر نینسی پلوسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ریپبلکن رکن کیون میکارتھی کانگریس کے نئے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ تاہم قرض کی حد سمیت اہم امور پر انکی جانب سے بائیڈن انتظامیہ کو لکھے گئے خطوط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
امریکی سیکرٹری خزانہ جینیٹ ییلین نے انکے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مثبت اپروچ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائیلاگ مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ بات چیت کا عمل جاری رہے گا۔ تاہم امریکہ جو کہ سب سے بڑی عالمی طاقت ہے دیوالیہ ہونے نہیں جا رہی۔
اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ امریکی حکومت کو قرض کی قسطیں اور تنخواہوں کی ادائیگی کے علاوہ ٹریژری بانڈز ہر منافع کی ادائیگی کیلئے 870 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج درکار ہے۔ واضح رہے کہ یوکرائن پر روسی حملے کے بعد اسے 190 ارب ڈالر کی امداد جاری کئے جانے کے بعد وفاقی محکمہ خزانہ کو حد قرض میں اضافے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ابتداء میں ایسا لگ رہا تھا کہ ریپبلکنز اس معاملے کو مراعات حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں تاہم گذشتہ روز انہوں نے اس حوالے سے کوئی مطالبات نہیں کئے گئے۔
اسٹاک مارکیٹس کی صورتحال
آج FTSE100 میں 38 پوائنٹس کی تیزی واقع ہوئی ہے۔ جس کے بعد انڈیکس 7762 پر ٹریڈ کر رہا ہے۔ اسکی کم ترین سطح 7723 اور بلند ترین 7776 ہے۔ اسوقت تک مارکیٹ میں 21 کروڑ 24 لاکھ شیئرز کا لین دین ہوا ہے۔
آج DAX30 انڈیکس بھی 226 پوائنٹس کے اضافے سے 16178 پر مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جرمن بینچ مارک کی ٹریڈنگ رینج 16069 اور بلند ترین 16230 ہے۔ جبکہ مارکیٹ میں 3 کروڑ 69 لاکھ شیئرز کا تبادلہ ہوا ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں CAC40 کا جو کہ 55 پوائنٹس کی بحالی کے ساتھ 7455 پر ٹریڈ کر رہا ہے۔ کاروباری سرگرمیوں کا آغاز 7440 سے ہوا۔ جس کے بعد اسکی بلند ترین سطح 7481 اور کم ترین 7538 رہی۔ اسکا شیئر والیوم 2 کروڑ 25 لاکھ ہے۔
یورپ کی سب سے بڑی مارکیٹ FTSEMIB میں سرمایہ کاری کا بہترین رجحان اور متاثر کن شیئر والیوم ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اسوقت یہ 207 پوائنٹس مستحکم ہو کر 27403 پر موجود ہے۔
آخر میں ذکر کریں گے سوئس مارکیٹ انڈیکس کا جو کہ آج سوئٹزرلینڈ کی Deposit Reports کے منفی اعداد و شمار جاری ہونے کے بعد منفی مومینٹم کے تحت 82 پوائنٹس کی مندی سے 11437 پر ٹریڈ کر رہا ہے۔ جبکہ اس میں 3 کروڑ 21 لاکھ شیئرز کا کاروبار ہو چکا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔