پاکستان کے صنعتی شعبے کی بڑھتی ہوئی مشکلات
اسوقت پاکستانی معیشت ایک مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ زرمبادلہ کے زخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ درآمدی بل تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اگرچہ برآمدات بھی پہلے سے بڑھی ہیں لیکن تجارتی خسارہ 44 ارب ڈالرز کا ہے جو ایکسپورٹس کی نسبت امپورٹس کے کہیں زیادہ بڑھنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں انرجی درآمدات اور توانائی کی قلت ہے جس سے پاکستان کا صنعتی شعبہ بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 20 فیصد کے قریب مینوفیکچرنگ یونٹس بنگلہ دیش منتقل ہو چکے ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ایکسپورٹس ملک میں زرمبادلہ لانے کا سب سے بڑا زریعہ ہوتی ہیں لیکن ملک میں بدقسمتی سے یہی شعبہ بری طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے، تجارتی خسارے کی وجہ سے ملکی کرنسی کی قدر بھی مسلسل گر رہی ہے۔ پاکستان میں تو یہ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ صرف دو عشرے پہلے تک پاکستانی روپیہ جنوبی ایشیاء کی سب سے مضبوط کرنسی سمبھا جاتا تھا لیکن آج بھارتی روپیہ اور بنگلہ دیشی ٹکا پاکستانی روپے سے اڑھائی گنا مضبوط ہو چکے ہیں ۔ حال ہی میں یوکرائن پر روسی حملے کے بعد دنیا بھر کی پابندیاں لگنے کے باوجود روسی کرنسی اور معیشت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اسکی وجہ انکی برآمدات اور ٹریڈ سرپلس ہیں۔ آج کے دور میں کسی بھی ملک کی معیشت کی چابی صنعتی شعبے اور برآمدات کو سمجھا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر انتہائی مضبوط سمجھا جاتا تھااور 2005 تک پاکستانی ایکسپورٹس میں 60 فیصد حصہ اسی شعبے کا تھا لیکن آج پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری بری طرح سے زوال کی شکار ہے جسکی سب سے بڑی وجہ توانائی کا بحران اور انڈسٹریل پالیسیز کا عدم تسلسل ہے۔ انڈسٹریل لوڈ شیڈنگ میں دوگنے اضافے نے پیداواری لاگت کو بےانتہا بڑھا دیا جسکی وجہ سے فیصل آباد اور سیالکوٹ کی زیادہ تر انڈسٹری بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال منتقل ہو گئی ۔ توانائی کے بحران اور ٹیکسز میں بے انتہا اضافے نے ڈینم مصنوعات سے لے کر بستر کی چادریں یورپ تک پہنچانے اور قیمتی زرمبادلہ کما کر دینے والا شعبہ حالیہ عرصے میں شدید مشکلات کا شکار ہے۔ کئی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں تو اکثر اپنے ملازمین میں کمی کر چکے ہیں۔ باقی نے اپنی پیداوار کو محدود کر دیا ہے کیونکہ بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جنریٹر استعمال کرنے سے پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال سیالکوٹ کی سپورٹس انڈسٹری کی ہے۔ گزشتہ دنوں سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر قاسم ملک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت ہنگامی حالت میں ہے جسکی زمہ داری پچھلے 15 سال میں آنیوالی تمام حکومتوں کی ہے جنہوں نے پاکستان کے صنعتی اور ٹیکسٹائل کےشعبوں کو مسلسل نظر انداز کیا ۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ انرجی کے بحران اور ٹیکسز میں بے انتہا اضافے کی وجہ سے ملک کے ریڈی میڈ گارمنٹس کی زیادہ تر فیکٹریاں ہمسایہ ممالک منتقل ہو چکی ہیں ۔ قاسم ملک کے خیال میں اگر پاکستان کے صنعتی شعبے کی مشکلات حل کر دی جاتیں تو ڈالر کا ریٹ بھی کنٹرول میں رہتا اور پاکستانی روپے کی قدر اتنی نہ گرتی کہ آج جنوبی ایشیاء کے چھوٹے سے ملک مالدیپ کی کرنسی پاکستان سے 12 گنا مضبوط نہ ہوتی۔ انکے مطابق بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث چھوٹے اور درمیانے درجے کی فیکٹریوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور پیداوار میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد اور سیالکوٹ کی بڑی فیکٹریوں میں سے زیادہ تر کے اپنے پاور پلانٹس ہوتے ہیں لیکن ملک کیں توانائی کی قلت سے چھوٹے اور درمیانے درجہ کی صنعتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ سیالکوٹ چیمبر کے نائب صدر کے مطابق اگر حکومت صنعتی شعبے کے مسائل حل کر دے تو صرف چار ماہ میں ڈالر واپس 125 روپے پر آ سکتا ہے کیونکہ برآمدات میں اضافے سے تجارتی خسارے میں کمی آتی ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے زخائر میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے میں کسی نے اس شعبے کی طرف توجہ نہیں دی جسکا نتیجہ درآمدی بلز میں دوگنا اضافے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔