چین روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار۔ ایک نئی اقتصادی پولرائزیشن کا آغاز ؟
یوکرائن پر حملے اور مغربی دنیا کی طرف سے پابندیاں عائد ہونے کے بعد چین روس کے تیل کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ روس بھارت، سربیا اور چین کو 50 فیصد رعائتی نرخوں پر تیل فروخت کر رہا ہے۔ اس سے پہلے چین سب سے زیادہ تیل سعودی عرب سے درآمد کرتا تھا تاہم روس پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد چینی کمپنیوں جن میں سائنو پیک اور ژینوا آئل شامل ہیں نے یوکرائن جنگ کے بعد روس سے کئی ملئین بیرل تیل درآمد کیا ہے۔ چین نے روس سے 35 فیصد رعائت کی درخواست کی تھی جسے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یہ کہہ کر 50 فیصد کر دیا تھا کہ روس چینی صدر ژی جن پنگ کو اپنا لیڈر سمجھتا ہے اور یہ کہ چین کے ساتھ دوستی کی کوئی حد نہیں ہے۔ چینی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ماہ 9 ملیئن بیرل تیل روس سے درآمد کیا گیا ہے اور سعودی عرب سے تیل کی درآمد کے معاہدے منسوخ کر کے روس منتقل کئے گئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ اس وقت روس کے خلاف معاشی پابندیاں لگانے میں جس حد تک چلے گئے ہیں وہاں سے ایک نئی اسٹریٹیجک جنگ شروع ہو رہی ہے۔ بینکنگ سیکٹر میں سخت ترین پابندیاں عائد ہونے کے بعد یہ چین ہی تھا جس نے روس کو بینکنگ کی سہولیات فراہم کیں اور روسی معیشت کو ڈوبنے سے بچایا۔ اس وقت اقتصادی میدان میں دنیا ایک نئی پولرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چین اسوقت روس کو تنہا چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور باہمی ٹریڈ بھی ڈالر اور یورو کی بجائے روبل اور یوان میں کر رہا ہے صرف اتنا ہی نہیں۔ اس تمام عرصے میں کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے چینی معیشت کے انتہائی سست ہونے اور چین میں تیل کی ڈیمانڈ کم ہونے کو باوجود چین نہ صرف روس سے تیل کی درآمدات کو بڑھا رہا ہے بلکہ اپنے آئل کے اسٹریٹیجک ذخائر کو کروڑوں بیرلز تک وسعت دے چکا ہے۔ صدر ژی روس کے ساتھ ایک تیل کی ایل نئی پائپ لائن کی تعمیر کے منصوبے کا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔ اس تمام عرصے میں صرف چین ہی نہیں بلکہ بھارت بھی معاشی میدان میں اور بالخصوص توانائی کے سیکٹر میں روس کو کھل کر سپورٹ کر رہا ہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں دونوں ممالک بلکہ چین اور بھارت روسی تیل کو عالمی مارکیٹ میں بھی پہنچانے میں مدد کر رہے ہیں اسی طرح مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود چین کئی سالوں سے ایران سے بھی تیل و گیس خرید کر ایرانی معیشت کو بچانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ اختلافات کے باوجود حالیہ عرصے میں چین اور بھارت بھی اس معاشی جنگ میں ایک دوسرے کے کافی قریب آ رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت بھی ایران کے ساتھ تیل کی درآمدات دوبارہ شروع کرنیکا ارادہ رکھتا ہے۔ اور نہ صرف مغربی دنیا سے معاشی میدان میں تعاون حاصل کر رہا ہے بلکہ روس، ایران اور چین کے ساتھ معاشی تعاون کا ایک نیا باب بھی شروع کر رہا ہے۔ چین پاکستان کو بھی اس نئی پولرائزیشن میں اس معاشی بلاک کا حصہ بنانا چاہتا ہے اور گزشتہ حکومت کے روس کے ساتھ ہونیوالے رابطوں میں کلیدی کردار ادا کر چکا ہے لیکن پاکستان کی معیشت مغربی دنیا کی پالیسیز کی پیروی کرتی ہے اور ملک میں حکومت کی تبدیلی سے پاکستان اور روس کے تعلقات دوبارہ اسی نہج پر پہنچ گئے جہاں سے گزشتہ حکومت نے نئی شروعات کی تھیں۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر جو بائیڈن نے یورپی یونین کے دورے کے موقع پر برملا کہا تھا کہ وہ روس کہ معاشی شہ رگ کو کچل رہے ہیں لیکن چین کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پا رہے۔ یوکرائن پر روسی حملے نے دوسری عالمی جنگ کے بعد والی سرد جنگ اور پھر کئی عشرے قبل افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کی طرح دنیا کو ایک بار پھر واضح طور پر دو بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔ لیکن اب یہ سرد جنگ سیاسی اور جغرافیائی میدانوں کی بجائے معاشی اور اقتصادی میدانوں میں لڑی جا رہی ہے جس کے بعد عالمی معیشت پر بے یقینی اور کساد بازاری کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔