امریکی معیشت پر دباؤ: US Bond Market میں ہلچل نے Donald Trump کو سوچنے پر مجبور کر دیا؟
Surging yields and investor unrest are pressuring economic stance

جبکہ دنیا بھر کی Stock Markets نے حالیہ دنوں میں کچھ حد تک استحکام دکھایا، US Bond Market میں اچانک اُتار چڑھاؤ نے نہ صرف عالمی سرمایہ کاروں کو چونکا دیا بلکہ امریکی صدر Donald Trump کو بھی فل الوقت Tariffs Policy عارضی طور پر معطل کرنے پر مجبور کر دیا. کیونکہ ام طور پر مستحکم رہنے والی US Bond Market میں یہ ایک غیر معمولی رجحان ہے. کیونکہ Government Bonds کو عمومی طور پر سب سے محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔
بانڈز کیا ہوتے ہیں اور سرمایہ کار ان پر کیسے ردعمل دیتے ہیں؟
حکومتیں عوام سے قرض لینے کے لیے Treasury Bonds جاری کرتی ہیں. اور ان کے بدلے میں سود ادا کرتی ہیں۔ تاہم، حالیہ ہفتوں میں US Bonds کی قیمتوں میں کمی اور Bond Yields میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ پیغام جاتا ہے. کہ سرمایہ کار امریکہ جیسی طاقتور معیشت کی US Bond Market پر بھی اعتماد کھو رہے ہیں۔
Tariffs Policy اور سرمایہ کاروں کا ردعمل
2 اپریل کو Liberation Day Tariffs کے اعلان کے بعد سرمایہ کار ابتدائی طور پر Bonds کی طرف مائل ہوئے. مگر جیسے ہی 5 اپریل کو یہ محصولات نافذ ہوئیں اور Donald Trump نے سخت پالیسی برقرار رکھی، Bond Sell-off کا آغاز ہو گیا۔ اس عمل نے Bond Yields کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا، جہاں 10 سالہ بانڈز کا منافع 3.9 فیصد سے بڑھ کر 4.5 فیصد ہو گیا۔
زیادہ منافع، زیادہ خطرہ: امریکی عوام کو کیا قیمت ادا کرنا ہو گی؟
جتنا زیادہ خطرہ، اتنا زیادہ منافع – یہی اصول Bond Market میں کارفرما ہے.۔ جب سرمایہ کار حکومتی بانڈز میں خطرہ محسوس کرتے ہیں. تو وہ زیادہ سود کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کا اثر براہ راست امریکی معیشت اور عوام پر پڑتا ہے۔ Credit Card Bills، Mortgage Rates اور Business Loans سب مہنگے ہو جاتے ہیں. جو Economic Growth کو سست کر سکتا ہے۔
کاروبار، گھر، اور ملازمتیں: اثرات ہر سطح پر
ماہر اقتصادیات جان کیناون کے مطابق، شرح سود میں اچانک اضافہ Small Businesses کے لیے خطرہ بن سکتا ہے. کیونکہ ان کے لیے Credit Access محدود ہو جاتی ہے۔ اسی طرح، Housing Market پر بھی دباؤ آ سکتا ہے. کیونکہ زیادہ تر گھر مالکان Fixed Rate Mortgages پر انحصار کرتے ہیں، جو مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔
Trump کے فیصلوں پر اثر: محصولات کی قیمت معیشت چکا رہی ہے
اگرچہ Donald Trump نے ابتداء میں سخت گیر مؤقف اپنایا، مگر US Bond Market Volatility اور کاروباری برادری کے ردعمل نے ان پر دباؤ بڑھا دیا۔ نتیجتاً، چین کے سوا دیگر ممالک کے لیے 90 دن کی مہلت کا اعلان کر دیا گیا، گو کہ اضافی 10 فیصد ٹیرف بدستور موجود ہے۔
UK Bond Market کی یاد دہانی: کیا امریکہ کو بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ صورتحال حیرت انگیز طور پر UK’s 2022 Mini Budget Crisis سے مشابہت رکھتی ہے. جہاں غیر متوقع ٹیکس کٹوتیوں اور غیر واضح معاشی حکمتِ عملی نے British Bond Market کو شدید دھچکا دیا تھا۔
اس وقت سرمایہ کاروں کے اعتماد میں شدید کمی آئی تھی. جس کے نتیجے میں برطانیہ کے بانڈز تیزی سے فروخت ہونے لگے. اور Bank of England کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑی تاکہ Pension Fund اور مالیاتی نظام کو بچایا جا سکے۔ اب امریکہ میں بھی کچھ اسی طرز کا منظر بنتا جا رہا ہے، جہاں بانڈ مارکیٹ میں مسلسل مندی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے بحران کی علامت بن چکی ہے۔
اگر یہی رجحان برقرار رہا اور Treasury Yields میں غیر معمولی اضافہ جاری رہا. تو امکان ہے کہ Federal Reserve کو بھی بالآخر ایسا ہی قدم اٹھانا پڑے گا جیسا برطانیہ نے اٹھایا تھا۔ تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بانڈز کی فروخت میں تیزی برقرار رہی، تو امریکی معیشت کو وہی غیر یقینی مستقبل دیکھنا پڑ سکتا ہے، جس کا سامنا برطانیہ نے 2022 میں کیا تھا۔
China اور US Bonds کا گہرا تعلق
اگرچہ جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی بانڈز ہیں، مگر چین – جو Trade War میں امریکہ کا مرکزی مخالف ہے – امریکی حکومت کے قرضوں کا دوسرا سب سے بڑا مالک ہے۔ اگر چین نے اپنی Bond Holdings فروخت کرنا شروع کیں، تو یہ US Dollar اور پوری امریکی معیشت کے لیے ایک دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ صرف سود یا منافع کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ امریکی معیشت کے لیے ایک وارننگ ہے۔ US Bond Market کی موجودہ صورتحال ایک ایسا اشارہ ہے جو Donald Trump سمیت دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔