کیا بھارت Indus Waters Treaty کو معطل کر سکتا ہے؟ قانونی اور سیاسی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
A deep dive into the legal, financial, and geopolitical implications of India's move

بھارت کی جانب سے Indus Waters Treaty کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان ایک خطرناک پیش رفت ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا قانونی طور پر ممکن ہے؟ 1960 میں طے پانے والا یہ معاہدہ صرف پانی کی تقسیم کا نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی Legal Framework کا حصہ ہے. جسے World Bank کی ثالثی میں ترتیب دیا گیا تھا۔
Vienna Convention اور بھارت کی قانونی حدود
بین الاقوامی معاہدوں سے متعلق سب سے اہم دستاویز Vienna Convention on the Law of Treaties ہے. جس کا آرٹیکل 62 "Fundamental Change of Circumstances” کی بنیاد پر معاہدے کی منسوخی کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شق Indus Waters Treaty پر لاگو نہیں ہوتی. کیونکہ اس معاہدے میں ایسی کسی تبدیلی کی گنجائش شامل نہیں کی گئی۔
بھارت کا دعویٰ اور Geopolitical Justification
بھارت کا کہنا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کے سبب حالات تبدیل ہو چکے ہیں، لہٰذا Indus Waters Treaty کو غیر مؤثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ دلیل بین الاقوامی سطح پر کمزور مانی جا رہی ہے۔ ماہر قانون دان ریما عمر کے مطابق، بھارت کی جانب سے معاہدہ ختم کرنے کی کوئی قانونی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ معاہدہ کسی بھی حالت میں یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح سابق نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت ایسا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو یہ بین الاقوامی قانون، خصوصاً Vienna Convention، کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔ ان کے مطابق:
"یہ صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی بھارت کے لیے نقصان دہ ہوگا، کیونکہ یہ اقدام عالمی برادری میں اس کی پوزیشن کو کمزور کرے گا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگر بھارت نے اس اقدام کو مکمل معطلی یا منسوخی تک لے جانے کی کوشش کی. تو یہ International Law کی خلاف ورزی ہو گی، جس سے بھارت کی ساکھ پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس موجود Legal and Diplomatic Options
پاکستان اس وقت World Bank سے رجوع کر سکتا ہے تاکہ Arbitration Court قائم کی جا سکے. جیسا کہ معاہدے کے تحت ممکن ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کے مطابق. یہ معاہدہ چونکہ World Bank کی زیرنگرانی ہوا تھا، اس لیے اگر کوئی بھی فریق اسے چیلنج کرتا ہے تو عالمی بینک کی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔
احمر بلال صوفی مزید وضاحت کرتے ہیں:
"یہ صرف پانی کی تقسیم کا معاملہ نہیں، بلکہ عالمی قوانین اور سفارتی روایات کا امتحان ہے۔ پاکستان کے پاس قانونی چارہ جوئی کے کئی راستے موجود ہیں جنہیں بروئے کار لا کر بھارت کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔”
اس کے علاوہ پاکستان اقوام متحدہ، International Court of Justice، اور دیگر Multilateral Forums پر بھی آواز اٹھا سکتا ہے. جہاں بھارت کے ممکنہ اقدامات کو Violation of Treaty Obligations کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
کیا بھارت پانی روک سکتا ہے؟ ایک Technical Analysis
اگرچہ بھارت کو مشرقی دریاؤں — Ravi, Beas, اور Sutlej — پر مکمل اختیار حاصل ہے. لیکن وہ مغربی دریاؤں — Indus, Jhelum, اور Chenab — پر صرف محدود Run-of-the-River Projects کر سکتا ہے۔ ان منصوبوں کے تحت پانی ذخیرہ یا بہاؤ کو بڑی سطح پر روکا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا بھارت کا پانی مکمل طور پر روک لینا Physically Impractical اور Legally Questionable ہے۔
پاکستان کی Agricultural Economy کی بقا خطرے میں
اگر بھارت کسی بھی صورت میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، تو پاکستان کی Agricultural Economy شدید متاثر ہو گی۔ فصلوں کی تباہی، Food Insecurity، اور دیہی معیشت کا زوال جیسے نتائج Water Crisis کو Financial Crisis میں بدل سکتے ہیں۔
World Bank میں بھارت کے لیے خطرناک راستہ
اگر بھارت اس معاہدے سے دستبردار ہوتا ہے تو یہ ایک Dangerous Precedent قائم کرے گا، جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کے دیگر Transboundary Water Agreements کے لیے بھی خطرہ بنے گا۔ اس سے بھارت کی Global Diplomacy کو دھچکہ لگ سکتا ہے، اور علاقائی Trade Relations بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
قانونی طور پر نہیں۔ اخلاقی طور پر نہیں۔ لیکن Political Pressure کے تحت بھارت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان نے مضبوط Diplomatic Strategy اور قانونی چارہ جوئی کا راستہ اپنایا. تو بھارت کا یہ اقدام ایک Backfire بن سکتا ہے — نہ صرف Indus Waters Treaty بلکہ خود بھارت کی Global Image کے لیے بھی۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔