پاکستان کی بڑھتی ہوئیں معاشی مشکلات اور عالمی ادارے۔
پاکستانی معیشت اسوقت ایک کڑے امتحان سے گزر رہی ہے۔ زرمبادلہ کے مسلسل گرتے ہوئے زخائر، توانائی کا بحران، کئی گنا بڑھ چکا افراط زر اور پاکستانی کرنسی کو مسلسل بے قدر کرتا ہوا امریکی ڈالر۔ یقینی طور پر اوپر بیان کی گئی ہائی لائٹس میں سے کوئی بھی جھلک ایسی نہیں ہے جو کہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے بھلی خبر ہو ۔ ڈالر کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی قیمت نے جہاں پاکستان میں افراط زر کو نقطہ ابال تک پہنچا دیا ہے وہیں پاکستانی عوام کے لئے روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزوں کو ناقابل خرید بھی بنا دیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں حالیہ اضافے نے پاکستان کے واجب الادا قرضوں میں 3600 ارب روپے کا اضافہ بھی کر دیا ہے اور تیل و گیس کی قیمتوں کو بھی ناقابل تصور حد تک بڑھا دیا ہے۔ چونکہ پاکستان ان تمام اشیاء کو درآمد کرتا ہے اس لئے ان کی قیمتوں میں اضافے کا اثر سبھی چیزوں کی قیمتوں پر پڑتا ہے ۔ پاکستانی معیشت کے منفی اعشاریوں اور ڈالر کی قدر میں بے لگام اضافے کی سب سے بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کے حصول میں تعطل ہے کیونکہ تمام دوست ممالک اور عالمی ادارے پاکستان کی مالی مدد کو آئی۔ایم۔ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کر چکے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو انتظام سنبھالے دو ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے تاہم ابھی تک کوششوں اور دعووں کے باوجود آئی ایم ایف پروگرام کو بحال نہیں کروا سکی اور یہی وہ بنیادی وجہ یے کہ کوئی بھی ملک ہو یا عالمی ادارہ، پاکستان کی مالی مدد کے لئے تیار نہیں اور اس سلسلے میں رویہ بھی کافی سرد مہرانہ ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال میں عالمی معاشی اداروں سے مالی مدد کے حصول کے لئے معایدے تو کئے گئے تاہم انہیں پورا نہیں کیا گیا۔ اسی وجہ سے آئی ایم ایف سمیت تمام مالی ادارے پاکستان کی اقتصادی مدد کے لئے کافی شکوک و شبہات کے شکار ہیں اور سعودی عرن، متحدہ عرب امارات، ترکی اور چین جیسے دوست ممالک بھی بیل آوٹ پیکیج جاری کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف سے جڑے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین معاشیات کے خیال میں اگر پاکستان کو آئی ایم ایف سے ہنگامی بنیادوں پر امداد نہ ملی تو نہ صرف بجٹ میں اعلان کردہ آمدنی اور اخراجات کے تخمینوں کو پورا نہیں کیا جا سکے گا بلکہ بیرونی ادائیگیوں کے نہ ہونے سے پاکستان دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات پاکستان کے لئے تصویر کے بھیانک رخ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا موجودہ ہروگرام 2019ء میں شروع ہوا تھا جس کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالرز موصول ہوئے تھا تاہم اس سال خے شروع میں آئی ایم ایف نے معاہدوں کی پاسداری نہ ہونے جن میں تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈیز کا خاتمہ بھی شامل ہے کے بعد قرضے کی قسط جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے زخائر کے تسلسل کو قائم نہ رکھا جا بلکہ پاکستان کی ساکھ بھی بری طرح سے متاثر ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اسوقت مالی بحران اور تعطل کی صورتحال نہ صرف جاری ہے بلکہ ملکی معیشت کو ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ اسوقت پاکستان آئی ایم سیف کے تمام مطالبات مان چکا ہے اور انہیں مستقبل میں تمام معاہدوں کی پاسداری کی مسلسل یقین دہانی کروا رہا ہے اور شائد آئندہ چند روز میں کوئی بریک تھرو بھی مل جائے لیکن درحقیقت پاکستان کو مستقبل میں ایسی کسی بھی صورتحال سے بچنے کے لئے نہ صرف اپنی امپورٹس کم کرنا ہوں گی بلکہ اپنی انڈسٹری کو بھی اوہر اٹھانا ہو گا تا کہ تجارتی خسارہ کم ہو سکے اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار ختم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی مثبت اقدام نہ اٹھایا گیا تو ہر چھ مہینے کے بعد ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔