سپر ٹیکس کسے کہتے ہیں اور کن حالات میں عائد کیا جاتا ہے ؟
جمعے کے روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سب کچھ ہی معمول کے مطابق تھا اور کے۔ایس۔ای ہنڈرڈ انڈیکس ملے جلے لیکن مثبت رجحان کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا جب اچانک 10 منٹ کے اندر جیسے زلزلہ آ گیا ہو مارکیٹ کی سبھی ایکوئیٹیز اور شیئرز منہ کے بل گر گئے اور شیئر بازار 2050 پوائنٹس منفی زون میں کریش ہوا۔ اسوقت تک کسی کے علم میں نہیں تھا کہ ایسا کیا ہوا ہے جس سے مارکیٹ کی یہ حالت ہوئی ہے۔ جب سوشل میڈیا پر تفصیلات شیئر ہوئیں تو پتہ چلا کہ حکومت نے سپر ٹیکس کے نام سے ایک نیا ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ اور پورا پروڈکشن سیکٹر ہی اس سے متاثر ہوا ہے تو اکثر ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ سپر ٹیکس کیا ہے اور سیلز ٹیکس، ان ڈائریکٹ سیلز ٹیکس ویلتھ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور کئی اور طرح کے ٹیکسز کے ہوتے ہوئے صارفین پر یہ کیوں عائد بلکہ صادر ہو رہا ہے۔ اور جس طرح کے شادیانے حکومتی وزراء بجا رہے ہیں کہ پہلی بار ایلیٹ کلاس اور امیر طبقے پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے ۔ تو ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے اور کیا نذیر احمد بشیر برف فروش اور ایسے کروڑوں عام افراد کی زندگیوں پر اس سپر ٹیکس نامی نئی نازل ہونیوالی بلا کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ؟ ۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ ایک خاص ٹیکس ہوتا ہے جو کہ عام ٹیکسز کے اوپر ایک خاص شرح سے عائد کیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ ٹیکس عائد تو انڈسٹریل کلاس پر ہوتا ہے تاہم اس کی ادائیگی عام صارفین مہنگائی کی شکل میں کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے ایک دوست نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر آسان ترین الفاظ میں بتایا کہ جب ڈکشنری میں ٹیکس سے متعلقہ ذخیرہ الفاظ ختم ہو جائیں تو ایسے ٹیکسز کی انٹری ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ ٹیکس تمام دوسرے ٹیکسز کے اوپر لگایا جاتا ہے۔ اب یہ کن حالات میں لگایا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ انہیں حالات میں لگایا جاتا ہے جن سے اس وقت پاکستانی معیشت گزر رہی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ بڑے تاجروں اور صنعتکاروں سے ون ٹائم یعنی معاشی تاریخ میں کسی تاجر یا صنعتکار پر ایک ہی بار وصول ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اثرات عام لوگوں تک ایسے پہنچتے ہیں کہ انڈسٹریل کلاس اور امیر طبقہ تمام اشیاء کو کسی نہ کسی مد میں مہنگا کر دیتا ہے اس لئے یہ دعوی درست نہیں ہے کہ عام لوگوں پر اس ٹیکس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے لئے ماہرین کے خیال میں سپر ٹیکس لگایا تو جا سکتا ہے لیکن اسے لگاتے وقت اسکا مقصد بیان نہیں کیا جاتا کیونکہ اس سے یہ ٹیکس کی بجائے لیوی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور لیوی لگانے کے لئے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری حاصل کرنا پڑتی۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر حکومت کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے کہ اس ٹیکس کو غربت کے خاتمے کے لئے استعمال کیا جائے گا یہ تو آنیوالے دنوں میں ہی سامنے آئے گی تاہم اسکی موجودہ شرح اور کارپوریٹ کلاس کے ردعمل سے یہ پیشگوئی ضرور کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے والی ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔