Reserve Bank of Australia RBA Responsibilities Policies and Impact on Forex
Reserve Bank of Australia RBA – Responsibilities Policies and Impact on Forex

ریزرو بینک آف آسٹریلیا (RBA) صرف ایک مرکزی بینک نہیں ہے۔ بلکہ یہ آسٹریلیا کی معیشت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ اس کا کردار صرف شرح سود مقرر کرنے تک محدود نہیں۔ بلکہ یہ مالیاتی استحکام، افراط زر پر قابو پانے اور ملک میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بھی کلیدی اقدامات کرتا ہے۔ عالمی معیشت میں آسٹریلین ڈالر کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ اس کا خام مال کی برآمدات اور ایشیا، خاص طور پر چین، کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات ہیں۔ لہٰذا، RBA کے فیصلے صرف آسٹریلیا تک ہی محدود نہیں رہتے۔ بلکہ عالمی فاریکس مارکیٹ پر بھی ان کا گہرا اثر پڑتا ہے۔
ریزرو بینک کی تاریخ اور ارتقاء
RBA کا قیام 1960 میں ’’ریزرو بینک ایکٹ 1959‘‘ کے تحت عمل میں آیا۔جب اس نے کامن ویلتھ بینک آف آسٹریلیا سے مرکزی بینک کے اختیارات حاصل کیے۔ اس تاریخی تبدیلی کا مقصد ایک آزاد اور خودمختار مالیاتی ادارہ قائم کرنا تھا۔ جو ملکی معاشی پالیسیوں کو حکومت کے دباؤ سے الگ رہ کر بنا سکے۔ سڈنی میں واقع اس کا مرکزی دفتر جدید معیشت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک مضبوط مالیاتی نظام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ RBA کا ڈھانچہ اس کی خودمختاری کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں گورنر اور بورڈ کے اراکین اپنے فیصلوں میں مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں۔
گورننس اور بورڈ کا کردار
RBA کے تمام اہم فیصلے ریزرو بینک بورڈ کرتا ہے۔ جو ایک انتہائی اہم اور بااختیار ادارہ ہے۔ اس بورڈ کی تشکیل کچھ یوں ہے:
• گورنر: یہ بورڈ کا سربراہ ہوتا ہے اور ملکی مالیاتی پالیسیوں کو تشکیل دینے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گورنر کی تقرری وفاقی حکومت کرتی ہے اور اس کی مدت عام طور پر سات سال ہوتی ہے۔
• ڈپٹی گورنر: یہ گورنر کی غیر موجودگی میں اس کے فرائض انجام دیتا ہے اور پالیسی سازی میں معاونت کرتا ہے۔
• سیکریٹری برائے خزانہ: یہ حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے اور بورڈ کو سرکاری مالیاتی صورتحال سے آگاہ رکھتا ہے۔
• آزاد ڈائریکٹرز: یہ معیشت، کاروبار، اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہوتے ہیں جو اپنے تجربے اور آزادانہ نقطہ نظر سے بورڈ کے فیصلوں کو بہتر بناتے ہیں۔
بورڈ ہر ماہ ایک بار ملاقات کرتا ہے۔ تاکہ کیش ریٹ اور دیگر پالیسی فیصلوں پر غور کر سکے۔ یہ ملاقاتیں آسٹریلیا کی معاشی صورتحال، عالمی رجحانات، اور افراط زر کے اعداد و شمار پر گہرا جائزہ لینے کے بعد کی جاتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے منٹس بعد میں جاری کیے جاتے ہیں۔ جن سے مارکیٹ کو RBA کے مستقبل کے ممکنہ اقدامات کا اندازہ ہوتا ہے۔
RBA کے بنیادی مقاصد اور ذمہ داریاں
ریزرو بینک کے بنیادی مقاصد کو ’’ریزرو بینک ایکٹ 1959‘‘ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ آسٹریلیا کی معاشی پالیسیوں کی بنیاد ہیں۔
• آسٹریلین ڈالر کا استحکام: RBA کا سب سے اہم مقصد کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنا ہے۔ یہ مقصد افراط زر کو کنٹرول میں رکھنے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
• روزگار کی مکمل سطح: RBA کا دوسرا مقصد ملک میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور بے روزگاری کی شرح کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہے۔
• عوامی خوشحالی اور معاشی ترقی: ان تمام مقاصد کا حتمی نتیجہ ملک میں عوامی خوشحالی اور معاشی ترقی کی صورت میں نکلتا ہے۔
اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے RBA کئی اہم کام سرانجام دیتا ہے:
• مالیاتی پالیسی پر عمل درآمد: یہ کیش ریٹ کو مقرر کرکے معیشت میں پیسوں کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے۔
• مالیاتی نظام کا استحکام: RBA اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آسٹریلیا کا مالیاتی نظام، بشمول بینک اور دیگر مالیاتی ادارے، محفوظ اور مستحکم رہیں۔
• کرنسی کا انتظام: یہ کرنسی نوٹ جاری کرتا ہے اور ادائیگی کے نظام کو جدید اور محفوظ بناتا ہے۔
• زرمبادلہ کے ذخائر کا انتظام: RBA ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالتا ہے اور ضرورت پڑنے پر کرنسی کی غیر معمولی حرکت کو روکنے کے لیے مارکیٹ میں براہ راست مداخلت کرتا ہے۔
مانیٹری پالیسی کے اہم اوزار اور ان کا استعمال
RBA اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے کئی طاقتور اوزار استعمال کرتا ہے:
• کیش ریٹ (Cash Rate): یہ RBA کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔ یہ وہ بنیادی شرح سود ہے جس پر بینک ایک دوسرے سے قرض لیتے ہیں۔ جب RBA کیش ریٹ بڑھاتا ہے تو دیگر بینک بھی اپنے قرضوں پر شرح سود بڑھا دیتے ہیں۔ جس سے معیشت میں پیسوں کی گردش کم ہوتی ہے۔ اور افراط زر پر قابو پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کیش ریٹ کم کرنے سے معاشی سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔
• اوپن مارکیٹ آپریشنز (Open Market Operations): RBA بانڈز اور دیگر سرکاری سیکیورٹیز کی خرید و فروخت کر کے بھی معیشت میں پیسوں کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے۔ بانڈز خریدنے سے مارکیٹ میں پیسہ آتا ہے اور بانڈز بیچنے سے پیسہ واپس RBA کے پاس چلا جاتا ہے۔
• فارورڈ گائیڈنس (Forward Guidance): RBA مستقبل کی مالیاتی پالیسیوں کے بارے میں اشارے دے کر بھی مارکیٹ کے رویے کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک غیر روایتی طریقہ ہے جس کے ذریعے RBA اپنا نقطہ نظر واضح کر کے سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں کو مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں مدد دیتا ہے۔
• کوانٹیٹیٹیو ایزنگ (Quantitative Easing): یہ ایک غیر معمولی پالیسی ہے۔ جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب شرح سود صفر کے قریب پہنچ چکی ہو۔ اس میں RBA طویل المدتی سرکاری بانڈز یا دیگر اثاثے خرید کر معیشت میں براہ راست پیسہ ڈالتا ہے۔ یہ پالیسی کووِڈ-19 کے دوران بڑے پیمانے پر استعمال کی گئی۔
• فاریکس مداخلت (Forex Intervention): اگر آسٹریلین ڈالر کی قدر میں غیر معمولی کمی یا زیادتی ہو۔ تو RBA براہ راست فاریکس مارکیٹ میں مداخلت کر کے آسٹریلین ڈالر کو خرید یا بیچ کر اس کی قدر کو استحکام بخشتا ہے۔
فاریکس مارکیٹ پر RBA کا اثر: A$ کا سفر
آسٹریلین ڈالر (AUD) دنیا کی سب سے زیادہ ٹریڈ ہونے والی کرنسیوں میں سے ایک ہے۔ اور اس کی قدر کا تعین بڑی حد تک RBA کے فیصلوں پر ہوتا ہے۔
• شرح سود میں اضافہ: جب RBA شرح سود بڑھاتا ہے تو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے آسٹریلیا میں سرمایہ کاری زیادہ پرکشش ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں آسٹریلین ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت 2011 میں اس وقت دیکھا گیا جب شرح سود میں اضافے کے باعث AUDUSD کی شرح ایک دہائی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
• شرح سود میں کمی: اس کے برعکس، جب RBA شرح سود میں کمی کرتا ہے تو آسٹریلین ڈالر کم پرکشش ہو جاتا ہے اور اس کی قدر کمزور پڑ جاتی ہے۔ کووِڈ-19 وبائی مرض کے دوران RBA نے شرح سود کو کم کر کے معیشت کو سہارا دیا۔جس سے آسٹریلین ڈالر اپنی قدر کھو بیٹھا۔
• گورنر کے بیانات: RBA گورنر کے بیانات اور پریس کانفرنسیں فاریکس مارکیٹ میں فوری طور پر ردعمل پیدا کرتی ہیں۔ ایک بیان میں مستقبل کی پالیسی کا محض اشارہ بھی ہزاروں ٹریڈرز کو اپنی پوزیشنیں بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
آسٹریلین ڈالر: ایک "کموڈیٹی کرنسی”
آسٹریلین ڈالر کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اسے ایک کموڈیٹی کرنسی کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔ آسٹریلیا لوہے، کوئلے، سونے اور زرعی اجناس جیسے خام مال کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جب ان اشیاء کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ تو آسٹریلیا کی برآمدات کی آمدنی بڑھتی ہے۔جس سے آسٹریلین ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کی قدر مضبوط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح، جب ان اشیاء کی قیمتیں گرتی ہیں تو ڈالر کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ RBA اپنی پالیسیوں کو بناتے وقت عالمی خام مال کی منڈیوں اور چین کی اقتصادی ترقی پر گہری نظر رکھتا ہے۔
عالمی تناظر: RBA بمقابلہ دیگر مرکزی بینک
RBA کی پالیسیوں کا موازنہ دیگر بڑے مرکزی بینکوں سے کرنا اس کے کردار کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے:
• فیڈرل ریزرو (امریکہ): فیڈرل ریزرو دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور معیشت کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور اس کے فیصلے عالمی مارکیٹ پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ RBA، اس کے مقابلے میں، ایک چھوٹی معیشت کا انتظام کرتا ہے۔ لیکن اس کا براہ راست مقابلہ امریکی ڈالر سے ہوتا ہے، اور دونوں کیش ریٹ کے فیصلوں کا AUD/USD کی شرح پر نمایاں اثر ہوتا ہے۔
• یورپی سینٹرل بینک (ECB): ECB کا مقصد یوروزون کے 19 ممالک کی ایک پیچیدہ اور متنوع معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، RBA کو صرف ایک ملک کی معیشت پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے۔جو اسے زیادہ لچکدار اور بروقت فیصلہ سازی کا موقع فراہم کرتا ہے۔
• بینک آف جاپان (BoJ): BoJ کئی دہائیوں سے کم افراط زر کے مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ اور اس نے طویل عرصے سے منفی شرح سود اور بڑے پیمانے پر کوانٹیٹیٹیو ایزنگ کی پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں۔ RBA اس سے مختلف ہے کیونکہ اس کی پالیسیاں زیادہ متحرک ہوتی ہیں۔ اور یہ معاشی صورتحال کے مطابق تیزی سے تبدیلیاں لاتا ہے۔
RBA کو درپیش مستقبل کے چیلنجز
RBA کو مستقبل میں کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
• افراط زر اور شرح سود کا توازن: مہنگائی پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر عالمی سپلائی چین کے مسائل اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے تناظر میں۔ RBA کو یہ توازن برقرار رکھنا ہو گا کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے مگر معاشی ترقی اور روزگار کو نقصان نہ پہنچے۔
• چین کی معیشت پر انحصار: چین آسٹریلیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اور چین کی معیشت میں سست روی آسٹریلیا کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ RBA کو اس صورتحال کے لیے تیار رہنا ہو گا تاکہ AUD پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
• ماحولیاتی تبدیلی: RBA کو اپنی پالیسیوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ جیسے توانائی کے شعبے میں منتقلی اور اس کے معاشی اثرات۔
• ڈیجیٹل کرنسی کا دور: ڈیجیٹل کرنسیوں اور سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) کی بڑھتی ہوئی اہمیت RBA کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔ اسے ادائیگی کے نظام میں ان ٹیکنالوجیز کو شامل کرنے اور ان کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینا ہو گا۔
نتیجہ
ریزرو بینک آف آسٹریلیا صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ آسٹریلیا کی معاشی صحت کا بیرومیٹر ہے۔ اس کے فیصلے ملکی معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔ اور عالمی فاریکس مارکیٹ میں آسٹریلین ڈالر کی قدر کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ RBA کی پالیسیوں کو سمجھنا صرف ماہرینِ اقتصادیات کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے۔ جو آسٹریلیا کی معیشت اور عالمی مالیاتی مارکیٹ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مستقبل کے چیلنجز، جیسے افراط زر، عالمی تجارت کے مسائل اور ٹیکنالوجی کی تبدیلی، RBA کی پالیسی سازی کی مہارت کا حقیقی امتحان لیں گے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔



