کرپٹو مائننگ کے ادارے کور سائنٹفک نے اپنے بٹ کوائن کے 80 فیصد اثاثے فروخت کر دیئے۔
کرپٹو مائننگ Crypto mining کے ایک لیڈنگ ادارے Core Scientific کور سائنٹفک نے اپنے بٹ کوائن کے 80 فیصد اثاثے فروخت کر دیئے ہیں۔ کپمنی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے 7202 بٹ کوائن جون میں فروخت کر دیئے ہیں جبکہ مستقبل میں بھی فروخت کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عالمی معاشی بحران، کساد بازاری کے خطرے اور کرپٹو نظام کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے بٹ کوائنز کی ہولڈنگز کو بیچا گیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فروخت کا عمل 23 ہزار ڈالرز فی کوائن کی قیمت پر شروع کیا گیا اور زیادہ تر لیکوئیڈٹی عمل میں آ چکی ہے۔ بیان کے مطابق کمپنی بیلنس شیٹ سے ڈیبٹس کو ختم کرنے کے لئے بٹ کوائنز ہولڈنگز کو لیکوئیڈیٹ کیا گیا ہے تا کہ صارفین کی واجب الادا رقومات ادا کی جا سکیں۔ جبکہ کمپنی اپنے فنڈز کی کی کمی پوری کرنے کے لئے رواں ماہ یعنی جولائی میں بٹ کوائنز کی فروخت جاری رکھے گی۔
زرائع کے مطابق امریکی فیڈرل ریزرو کی طرف سے Monetary policy مانیٹری پالیسی کو سخت کئے جانے، نئے Crypto mining کرپٹو ریگولیشنز کے منصوبے اور افراط زر کی وجہ سے زیادہ تر Crypto Platforms Digital Currencies کرپٹو پلیٹ فارمز ڈیجیٹل کرنسیز کی ادائیگیاں معطل یا منجمند کر چکی ہیں جس کے وجہ سے کرپٹو کی دنیا کے تمام بڑے نام ان ڈیجیٹل اثاثوں کو مسلسل فروخت کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ بٹ کوائن ڈیجیٹل اور کرپٹو کرنسیز میں سب سے بڑی کیپٹلائزیشن رکھنے والی کرنسی یے جو کہ اپنی 75 فیصد کے قریب قدر کھو چکی ہے۔ نومبر 2021 میں بٹ کوائن کی قیمت اپنے عروج پر تھی اور ایک بٹ کوائن 69 ہزار ڈالرز میں فروخت ہو رہا تھا جو کہ اب محض 18 ہزار کے لگ بھگ فروخت ہو رہا ہے۔ جبکہ معاشی ماہرین اس کے 8 ہزار ڈالرز فی کوائن تک گرنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ بٹ کوائن کی قدر ہر ڈیجیٹل کرنسی اور سٹیبل کوائن پر اثر ڈالتی ہے کیونکہ کرپٹو کی بلاک چینز میں 80 فیصد سے زائد کیپٹلائزیشن اور سرمایہ کاری بٹ کوائن کی ہی ہے۔ Crypto mining بٹ کوائن کے مائنرز جو کہ کوائنز پر ریوارڈز حاصل کرنے کے لئے کمپیوٹر پر بلاک چین کے پیچیدہ ریاضیاتی کوڈز کو حل کرتے ہیں ۔ موجودہ صورتحال کو کرپٹو ونٹر کا نام دے رہے ہیں۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔