ممکنہ امریکہ تائیوان تجارتی معاہدہ اور عالمی اقتصادی منظر نامہ

امریکی حکومت نے 21 صدی کے تقاضوں کے مطابق تائیوان کے  ساتھ تجارتی معایدے کے لئے مذاکرات کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے حکومتی سطح پر امریکہ کے تائیوان کے ساتھ کبھی اس طرح کی بات چیت نہیں ہوئی۔ امریکی تجارتی نمائندے کی طرف سے جاری کردہ تفصیل کے مطابق تائیوان میں امریکی معاشی انسٹیٹیوٹ اور امریکہ میں تائے۔پے اکنامک اینڈ کلچرل ریپریزینٹیٹیو کے درمیان تجارتی تعلقات میں ایک نیا باب شروع کرنے کے لئے مذاکرات شروع کئے جا رہے ہیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ امریکہ 1979 سے لے کر اب تک  سرکاری سطح پر ون۔ چائنا پالیسی کا حامی ہے اور پیپلز ریپبلک آف چائنا کو ہی اصل چین تسلیم کرتا ہے تاہم تائیوان کی کے ساتھ امریکہ کے خصوصی تعلقات ہیں۔چین تائیوان کو اپنا باغی صوبہ قرار دیتا ہے اور کسی سرکاری وفد کے تائیوان کے دورے کو اپنی سلامتی کے منافی سمجھتے ہوئے اس پر اسکا ردعمل انتہائی شدید ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد سے چین۔امریکہ تعلقات سخت تناؤ کے شکار ہیں۔ لیکن وائٹ ہاؤس اس دورے کو نینسی پلوسی کا ذاتی دورہ قرار دیتا ہے۔ امریکہ تائیوان تجارت کا موجودہ حجم 105 بلیئن ڈالر سے زیادہ ہے۔ امریکہ ہر سال تائیوان سے ہر سال 66 بلیئن ڈالرز کی کمپیوٹر اور سمارٹ آلات میں استعمال ہونیوالی میموری چپس اور الیکٹرونک آلات کے مختلف پرزہ جات درآمد کرتا ہے جبکہ تائیوان ہر سال امریکہ سے زیادہ تر زرعی اجناس درآمد کرتا ہے جن کا حجم 39 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ 2024 تک دونوں ممالک اس تجارت خو دوگنا کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم 140 کھرب ڈالرز کا صنعتی مال سمیٹے ہوئے چین کے پاس علی بابا کی تجوری کی وہ چابی ہے جس سے وہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں تجارتی مال کی سپلائی روک کر کساد بازاری اور معاشی بحران پیدا کر سکتا ہے۔ اس لئے ایسے کسی بھی تجارتی معاہدے کا مطلب عالمی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانا ہو گا کیونکہ اعلانیہ طور پر  روس پر پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں آنے والے معاشی بحران کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے یورپ اور امریکہ اب غیر اعلانیہ طور پر روسی رسد کو بحال کرنے میں مصروف ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ روس سے تجارتی مار کھانے کے بعد بھی مغربی دنیا کی تشفی نہیں ہوئی تو کساد بازاری کی کسر پوری کرنے کے لئے اب چین کا رخ کیا جا رہا ہے۔   عالمی معیشت  چین کے ساتھ ایڈوینچر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ چین میں اومیکرون کی وجہ سے عائد سخت پابندیوں کے بعد کی معاشی سست روی نے پوری دنیا کو کساد بازاری میں مبتلا کر دیا ہے اور اس طرح کے عالمی اقتصادی منظر نامے میں تائیوان امریکہ تجارتی معاہدہ ” آ چین مجھے مار” کے مترادف ہو گا۔ کیونکہ دنیا پہلے ہی معاشی میدانوں میں تیسری عالمی جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہے جس سے مستقبل قریب میں بایر آنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button