عالمی فائنانشل مارکیٹس میں گراوٹ کا جائزہ۔

آج ایک بار پھر جاپان سے لے آسٹریلیا اور ہانگ کانگ سے نیویارک تک معاشی مارکیٹس (Financial Markets ) میں شدید گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔ جسکی سب سے بڑی وجہ S&P500 اور Dowjones کا رواں سال 2022 ء کی کم ترین سطح پر بند ہونا ہے۔ ایشیائی مارکیٹس ( Asian Markets ) کی یہ صورتحال امریکی فیڈرل ریزرو ( Federal Reserve ) کی طرف سے شرح سود میں تبدیلی اور اس سے اگلے ہی روز جاپانی مرکزی بینک (Bank of Japan ) کی طرف سے اوپن مارکیٹ مداخلت ( Open Market Interference ) اور پھر قرض لے کر ٹیکس چھوٹ دینے کا لز ٹرس انتظامیہ کا منصوبہ . یہ سب وہ عوامل ہیں جو کہ عالمی مارکیٹس ( Global Markets ) کی گراوٹ کا سبب بنے ہیں۔ آج 2022 ء کے تیسرے کوارٹر کا آخری کاروباری دن ہے اور عالمی معیاری وقت کے لحاظ سے گذشتہ رات امریکی وال اسٹریٹ (Wall Street ) میں ہونیوالی شدید Selling کے بعد تمام عالمی مارکیٹس دباؤ کی شکار ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے صنعتی پیداوار کے اعداد و شمار ( Chinese Industrial Production Data ) جو کہ توقعات کے برعکس منفی اعداد و شمار پر مشتمل ہے، بھی عالمی مارکیٹس کی گراوٹ کی اہم وجہ ہے۔آج Nikkei225 کی Capitalization یعنی سرمائے کے حجم میں 2 فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جو کہ آج ختم ہونیوالے کوارٹر کے شدید مندی والے دس دنوں میں سے ایک ہے۔ ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج کے Topix Index میں 1.86 فیصد کی گراوٹ ہوئی ہے۔ جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی معاشی مارکیٹس (Financial Markets ) میں بھی دو فیصد کے قریب کمی واقع ہوئی ہے۔

 ہانگ کانگ کے Hangseng میں اگرچہ آج کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی تاہم اسکے ٹییکنالوجی کے اسٹاکس ( Tech. Stocks ) جو کہ امریکی وال اسٹریٹ میں Listed ہیں میں 1.23 فیصد کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ عالمی مارکیٹس کی آج کی صورتحال کے بارے میں عالمی معاشی تحقیقی ادارے اے۔این۔زی (ANZ Research ) کے بیان کے مطابق صرف عالمی جغرافیائی، معاشی اور سیاسی حالات ہی Financial Markets کو کساد بازاری (Recession ) سے دوچار نہیں کر رہے بلکہ اسکے ذمہ دار وہ تمام معاشی فیصلے ہیں جو کہ دنیا بھر میں کساد بازاری اور افراط زر کا مقابلہ کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں ۔ ادارے کے مطابق عالمی معاشی بحران ( Global Economic Crisis ) میں شدت کی وجہ سے دنیا کی چھوٹی اور متوسط معیشتوں کو ڈبو رہی ہے۔ ان تمام عوامل کے نتائج سال 2022ء کے آخری کوارٹر میں زیادہ کھل کر سامنے آئیں گے۔ وال اسٹریٹ کی طرچ سے آج کی Panic Selling پر جاری کئے گئے بیان میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ Tech Stocks کے گرنے کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ کاروں کی طرف سے اس سیکٹر کی بڑی لاگت کی وجہ سے انہیں Risk Assets میں شمار کرنا ہے اور اسی وجہ سے امریکی S&P500 کے ٹیک اسٹاکس میں سے سرمائے کا انخلاء ہوا ہے۔ جب S&P کے ٹیک اسٹاکس گرتے ہیں تو اس سے منسلک دنیا بھر کے انڈیکس بالخصوص آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپانی اسٹاکس بھی گراوٹ کے شکار ہو جاتے ہیں۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button