امریکی ڈالر عالمی معیشت پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے ؟؟؟
کورونا کی عالمی وباء (Covid-19 ) نے عالمی مالیاتی نظام میں ایک ایسی دراڑ ڈالی جسے پر کرنے کی کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی تھی کہ روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا جس کے جواب میں امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے روس پر دور جدید کی سخت ترین پابندیاں عائد کر دیں اور اسے نہ صرف عالمی ترسیل زر کے نظام (Swift ) سے نکال دیا گیا بلکہ دنیا کا سب سے زیادہ سونا پیدا کرنیوالے ملک پر سونے (Gold ) کی تجارت پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ان پابندیوں کا دائرہ کار ہر آنے والے دن کے ساتھ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ اس بین الاقوامی منظر نامے میں چین، برازیل اور جنوبی افریقہ کھل کر نہ صرف روس کی براہ راست بھارت و ترکی بالواسطہ حمائت میں سامنے آئے ہیں بلکہ اپنا ایک الگ معاشی بلاک بھی بنا رہے ہیں۔ روس کی طرف سے جوابی معاشی وار ظاہر ہے یورپ کو گیس و تیل کی رسد بند کرنا تھا جس نے پورے یورپ کو کساد بازاری (Recession )میں دھکیل دیا ہے۔ اس تمام عرصے میں عالمی مالیاتی نظام میں چین کی طرف سے رسد کے محدود کئے جانے نے عالمی معاشی بحران (Global Financial Crisis ) کو سنگین تر کر دیا ہے اور پوری دنیا ہی کساد بازاری کے دروازے پر آ گئی ہے۔
حالیہ عرصے میں امریکی فیڈرل ریزرو (U.S Federal Reserve ) کی طرف سے تین بار عالمی مالیاتی نظام کی مرکزی اکائی ڈالر کو گراوٹ سے بچانے اور افراط زر (Inflation ) کو کم کرنے کے لئے شرح سود (Interest Rate ) میں اضافہ کیا گیا جس سے عالمی معاشی بحران کے اثرات اور کساد بازاری کے بھنور میں پھنسے ہوئے یورو ( EUR ) ، برطانوی پاؤنڈ (GBP ) ، جاپانی ین (JPY ) اور سوئس فرانک (CHF ) سمیت تمام عالمی کرنسیز تیزی سے امریکی ڈالر ( USD ) کے سامنے کاغذ کے پرزوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟۔ ذہن میں آنیوالے اس سوال کا سادہ لفظوں میں جواب یہ ہے کہ امریکی ڈالر عالمی مالیاتی نظام کی مرکزی اکائی ہے جس سے جڑی ہر خبر اس نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے۔ امریکی شرح سود کے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دنیا کے باقی تمام ممالک کی کرنسیز کی قدر پر براہ راست اثر ہوتا ہے کیونکہ دنیا تبادلہ زر (Forex Exchange ) کیلئے امریکی ڈالر استعمال کرتی ہے چاہے وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ اور شرح سود میں اضافہ پیسو، درہم، روپے، ین اور یوان سمیت تمام کرنسیز کے بدلے میں امریکی ڈالر کی قیمت خرید میں اضافہ کر دیتا ہے۔ چنانچہ امریکی معیشت میں شرح سود میں اضافے کے کانگو کے کھیتوں میں ہل جلانے والے کسان پر بھی اتنے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جتنے کہ کوریا کی فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے مزدوروں اور پاکستان میں اجرت پر اوبر کے ساتھ منسلک ٹیکسی ڈرائیورز پر۔ یا پھر ترکی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے طالبعلم پر۔ کیونکہ جہاں بھی بین الاقوامی ترسیل زر ہونی ہے وہ امریکی ڈالر یا پھر سونے (Gold ) کے بدلے میں ہی ممکن ہے۔ اور جب ڈالر خریدنے پر شرح سود میں اضافہ ہو جائے تو پوری دنیا ہی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔
جب کسی ملک کی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے تو اس ملک کی افراط زر میں اضافہ ہو جاتا ہے جسے سادہ ترین الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس ملک کو عالمی تجارت میں ادائیگیوں اور بیرونی قرضوں (Foreign Debts) کی واپسی کے لئے امریکی ڈالرز خریدنے پڑتے ہیں جو کہ ظاہر ہے شرح سود میں اضافے کی وجہ سے مہنگے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح زیادہ ادائیگیوں کے بوجھ تلے اس ملک کی کرنسی بے قدر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ موجودہ عالمی بحران میں دنیا کی بڑی بڑی معشتیں شدید دباؤ میں ہیں۔
ڈالر انڈیکس (DXY ) دنیا بھی کی کرنسیز، ڈیجیٹل اثاثہ جات (Digital Assets ) اور کماڈتیز کی ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ کی اوسط قیمت کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں عالمی کرنسیز کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا بھر کے مرکزی بینکس شرح سود میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں اور نیا مالیاتی بحران جنم لے رہا ہے۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب Dow Jones اور Nikkei225 میں اسٹاکس دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہیں تو آخر امریکی ڈالر ہی کیوں اوپر جا رہا ہے ؟ اور اس کا متبادل سونا (Gold ) کیوں دباؤ میں ہے۔ تو اس کے جواب کے لئے ہمیں ترسیل زر کے نظام اور تجارتی میکانزم پر غور کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے متحدہ عرب امارات کر خام تیل ( Crude Oil ) کی مد میں ادائیگی کرنی ہو تو ایسا پاکستانی روپے اور درہم میں نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عالمی ترسیل زر کا نظام (SWift ) صرف امریکی ڈالر کو ہی تبادلے کے یونٹ کے طور پر قبول کرتا ہے یا پھر امریکی ڈالر کے ساتھ منسلک سنہری دھات یعنی سونے (Gold ) کو۔ وہ بھی اسوقت جب رقم بھجوانے والا ملک عالمی اداروں کو آگاہ کر دے کہ اب اسکے پاس بین الاقوامی ادائیگیوں کیلئے امریکی ڈالرز کی مطلوبہ مقدار دستیاب نہیں ہے۔ تو اسے سونے کی معینہ مقدار میں ادائیگی کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن وہ بھی سونے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر سے نہ کہ اس ملک کی اپنی کرنسی میں سونے کی قیمتوں کی بنیاد پر۔ چنانچہ جب متبادل ادائیگیوں کے لئے سونا (Gold ) استعمال ہوتا ہے تو ادائیگیوں کے لئے درحقیقت سونے کے بدلے میں عالمی مارکیٹ سے امریکی ڈالر ہی خرید کر ادائیگی کی جا رہی ہوتی ہے۔چنانچہ جب امریکی فیڈرل ریزرو شرح سود میں اضافہ کرتا ہے تو درحقیقت کسی بھی کرنسی کو عالمی ادائیگیوں کے لئے ڈالر میں تبدیل کرنا مہنگا ہو رہا ہوتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی طلب (Demand ) اپنے عروج پر ہے کیونکہ کساد بازاری کے خوف سے دنیا بھر کے بڑے سرمایہ کاروں نے اسٹاکس، کماڈٹیز اور کرپٹو اثاثے فروخت کر کے امریکی ڈالرز کی خریداری کی ہے جس کی وجہ سے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ امریکی ڈالر کی نہ صرف طلب میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کی قدر بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے جس کا اندازہ ہم اس سے لگا سکتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل امریکی ڈالر کے مقابلے میں یورو ( EUR/USD ) کی قیمت 1.4550 تھی یعنی ڈیڑھ گنا زیادہ لیکن شرح سود بڑھانے کی ریس کے بعد آج یورو 0.9750 پر ہے یعنی 30 سال کی کم ترین سطح پر۔ جبکہ جاپانی ین (JPY ) 48 سال کے کم ترین لیول پر ہے اور برطانوی پاؤنڈ بھی 21 سال پہلے کے دور میں لوٹ گیا ہے۔ اسکے علاوہ ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی معیشت ایشیاء اور یورپی کمیشن کے ممالک کی نسبت یوکرائن جنگ سے کم متاثر ہوئی ہے۔ کیونکہ امریکہ دنیا میں خام تیل پیدا کرنیوالا سب سے بڑا اور گیس و سونے کی پیداوار کے لحاظ سے بالترتیب تیسرا اور پانچواں بڑا ملک ہے اور زرائع توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا بھی اسے براہ راست فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ چینی کرنسی کی قدر میں کمی سے امریکہ کے لئے چین سے درآمدی سامان کی لاگت میں اضافہ اور تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ یعنی ڈالر کی قدر میں اضافے سے امریکہ کیلئے درآمدی خسارہ ( Trade Deficit ) بڑھ جاتا ہے۔ اسکے علاوہ چونکہ کماڈٹیز کی عالمی مارکیٹ امریکی ڈالر کے ساتھ ہی منسلک ہے اور اسکی تمام وصولیاں اور ادائیگیاں ڈالر میں ہی ہوتی ہیں اس لئے ڈالر کی قدر میں اضافہ باقی تمام دنیا کے لئے ذرائع توانائی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اسوقت اپنی بنیادی شرح سود میں اضافہ کر کے اپنی کرنسیز کی قدر بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ریزرو بینک آف آسٹریلیا نے 25 بنیادی پوائنٹس ( 0.25 فیصد) ، نیوزی لینڈ کے مرکزی بینک نے بنیادی پوائنٹس اور بینک آف انگلینڈ نے کچھ ہی عرصے میں بتدریج 200 بنیادی پوائنٹس ( 2 فیصد) بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ ان ممالک میں افراط زر کو قابو کرنے میں تو مدد ملی ہے تاہم کاروبار اور گھروں کے لئے قرضہ لینا مہنگا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سارے مالیاتی کھیل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جتنے عرصے میں دوسرے ممالک شرح سود میں اضافہ کر کے افراط زر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اتنے عرصے میں امریکی مانیٹری ریگولیٹری اتھارٹی فیڈرل ریزرو جیسے عرف عام یا کہ "پیار” سے فیڈ (FED ) بھی کہا جاتا ہے شرح سود میں دوبارہ اضافہ کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے عالمی مالیاتی نظام ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ اور جاپانی ین کی زیر قیادت ایشیائی مالیاتی نظام کی تو جیسے ریڈھ کی ہڈی ہی ٹوٹ چکی ہے۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ایسا کب تک جاری رہے گا تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ جب تک کوئی اور عالمی کرنسی بین الاقوامی ادائیگیوں کے لئے اتنی ہی قابل قبول نہیں ہو جاتی جتنا کہ امریکی ڈالر ۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔