معاشی اثاثوں میں فروخت کی موجودہ لہر بٹ کوائن کو کتنا متاثر کر سکتی ہے۔

اثاثوں کہ تحلیل اور فروخت کا موجودہ رجحان تمام اثاثوں کی قدر میں گراوٹ کا باعث بن رہا ہے۔ افراط زر (Inflation ) کی موجودہ لہر کے نتیجے میں تمام معاشی مارکیٹس (Financial Markets ) ہی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ کسی ایک مارکیٹ تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر تمام مارکیٹس اس سے متاثر ہو رہی ہیں۔ جن میں بٹ کوائن (BTC ) بھی شامل ہے۔ ذیل میں ہم بٹ کوائن کے بنیادی اور ٹیکنیکی انڈیکیٹرز کا جائزہ لیں گے کہ کیا واقعی دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی 13 ہزار ڈالرز کے بیئرش لیول تک آ سکتی ہے۔

کرپٹو مارکیٹ کے تجزیہ کار سام رول نے بٹ کوائن میگزین میں اپنے مضمون میں یہ بحث کی ہے کہ دراصل تمام مارکیٹس جن میں کرپٹو مارکیٹ بھی شامل ہے کا سب سے بڑا مسئلہ اثاثہ جات کی تحلیل ہے جو کہ موجودہ عالمی معاشی بحران (Global Financial Crisis ) کے بعد ایک عالمی رجحان بن چکا ہے اور جس کے اثرات بٹ کوائن پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اثاثوں کی تحلیل کی سب سے بڑی وجہ پوری دنیا کے مرکزی بینکوں کی بیلینس شیٹس میں آنیوالی واضح گراوٹ ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں شرح سود (Interest Rates ) کو کم رکھنے کےساتھ افراط زر کو قابو میں رکھنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے اور نہ صرف اتنا ہی بلکہ اثاثوں کی بےتحاشہ تحلیل کے دوران مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنا اور قرضوں سمیٹ مارگیج کے نظام کو بھی متوازن رکھنا کساد بازاری (Recession ) کے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس سے معاشی اثاثہ جات کی قدر میں گذشتہ 12 سال کے دوران سب سے زیادہ گراوٹ واقع ہوئی ہے۔

امریکہ، چین، یورپ اور آسٹریلیا کے مرکزی بینکوں کی بیلینس شیٹس 2022ء کے دوران 21 ٹریلئن امریکی ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں جو کہ 2003 سے 10 گنا زیادہ ہیں۔ 2020ء میں کورونا کی عالمی وباء نے بلاشبہ بینکوں میں موجود اثاثہ جات میں اضافہ کیا اور ڈیجیٹل معاشی سرگرمیوں کو اپنے نقطہ عروج تک پہنچا دیا۔ رول کہتے ہیں کہ مارچ 2021ء میں بٹ کوائن 60 ہزار امریکی ڈالرز فی کوائن کی سطح تک پہنچ چکا تھا جو کہ کرپٹو کرنسی کے عروج کا دور تھا کیونکہ ہر کوئی ڈیجیٹل اثاثے خریدنا چاہتا تھا لیکن یوکرائن جنگ اور توانائی کے موجودہ بحران کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب سرمایہ کار کساد بازاری (Recession ) کے خوف سے اپنے تمام اثاثہ جات جن میں ڈیجیٹل اثاثے بھی شامل ہیں تحلیل کر رہے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت کرپٹو کرنسیز بالخصوص بٹ کوائن کا حالیہ عرصے میں بار بار بحران کا شکار ہونا ہے بلکہ بعض اوقات تو معدومیت کی سطح پر جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

بٹ کوائن کی قدر کے بارے میں پیشگوئیاں۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا بٹ کوائن پہلے 13 ہزار کی سطح تک آئیگا یا 29 ہزار ڈالر کی قدر تک وسعت اختیار کرے گا۔ مائنرز کی طرف سے بٹ کوائن کی ہونیوالی فروخت کے نتیجے میں اس پر دباؤ میں اضافہ ہوا۔ بٹ کوائن کی قدر میں ہونیوالی کمی کے نتیجے میں اسکے مائنرز کو ملنے والی رقومات میں اگست اور 13 اکتوبر 2022ء کے دوران کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ تمام تجزیہ کار اسوقت بٹ کوائن کی قدر میں تیزی اور Bullish Trend کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ تاہم چند تجزیہ کار ایسے بھی ہیں جو کہ دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی کے لئے حالات کو ناسازگار قرار دے رہے ہیں اور اس کے بتدریج 13 ہزار ڈالر کی سطح تک گرنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں ٹیکنیکی طور پر 13 ہزار کی سطح سے اگلے چند ماہ کے دوران بٹ کوائن 25 سے 30 ہزار ڈالرز کے درمیان میں مستحکم نظر آ سکتا ہے۔ کیونکہ اگلے چند ماہ کے دوران بالخصوص 2023ء کے پہلے کوارٹر کے اختتام تک کساد بازاری (Recession ) کی صورتحال واضح ہو جائے گی نیز دنیا بھر کے مرکزی بینکوں میں شرح سود میں مسلسل اضافے کی دوڑ بھی ختم ہو جائے گی جس سے سرمایہ کاروں میں ڈیجیٹل اثاثوں پف اعتماد بھی لوٹ آئے گا۔ اور جب بھی ڈیجیٹل معاشی اثاثوں کی طلب (Demand ) میں اضافہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بٹ کوائن کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اگر کرپٹو مارکیٹ کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو 18 ہزار کی سطح بٹ کوائن کی مضبوط ترین سپورٹ ہے جو کہ اسے اب تک بیئرش رجحان اختیار کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ گزشتہ 200 دن کی سادہ حرکاتی اوسط (SMA ) کا جائزہ لیں تو اب تک بٹ کوائن نے صرف ایک بار 18 ہزار کی نفسیاتی سپورٹ کو توڑا ہے اور وہ بھی محض چند گھنٹوں کے لئے اس لئے موجودہ حالات میں کسی منفی ٹریگر کے بغیر بٹ کوائن کے 18 ہزار کی سپورٹ توڑتا ہوا نظر نہیں آ رہا تاہم اگر یورپ کساد بازاری (Recession ) کا شکار ہوا تو بٹ کوائن 13 ہزار کی سطح تک گر سکتا ہے دوسری صورت میں یہ اسٹاکس کے ساتھ ہی اوپر کی طرف بحالی کا سفر کرتے ہوئے آنیوالے کچھ عرصے کے دوران 25 ہزار سے 30 ہزار کے درمیان ٹریڈ کرتا ہوا دکھائی دے سکتا ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button