اسٹاکس کارنر: ایشیائی اور آسٹریلین مارکیٹس میں ملے جلے رجحان کے ساتھ ٹریڈ
آج عالمی اسٹاکس (Global Stocks) میں سست روی کی ایک لہر نظر آ رہی ہے جس کی بنیادی وجہ عالمی منظر نامے میں بڑی تبدیلیوں کے آثار ہیں۔ گذشتہ رات روس کی طرف سے یوکرائن پر سینکڑوں میزائل فائر کئے گئے جس کے بعد پولینڈ کی حکومت نے دعوی کیا کہ اس کے کئی میزائل اسکے سرحدی علاقوں میں آ کر گرے جس سے دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ پولینڈ یورپی یونین اور نیٹو کا رکن ہے۔ اور اس پر ہونے والا حملہ براہ راست یورپی کمیشن اور نیٹو پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔۔ پولینڈ پر روسی حملے کی تصدیق ہونے کی صورت میں یورپ اور امریکہ کی طرف سے شدید ردعمل آنے کی توقع ہے۔ جس کے باعث عالمی اسٹاکس میں مندی کی لہر نظر آ رہی ہے جبکہ سرمایہ کار اسے تیسری عالمی جنگ (Third World War) کی ابتداء سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن سمیت عالمی راہنماؤں کی بڑی تعداد انڈونیشیاء کے شہر بالی میں جی۔20 کانفرنس کے سلسلے میں موجود ہیں۔ اور امریکی صدر نے صورتحال پر غور کے لئے بالی میں ہی جی۔سیون اور نیٹو کے ہنگامی اجلاس طلب کئے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے عالمی مارکیٹس پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آسٹریلین اسٹاکس میں ملا جلا اور قدرے منفی رجحان نظر آ رہا ہے۔ ASX200 انڈیکس 15 پوائنٹس کی گراوٹ کے ساتھ 3118 کی سطح پر ٹریڈ کر رہا ہے۔ جبکہ لگ بھگ یہی صورتحال نیوزی لینڈ کی اسٹاکس میں بھی نظر آ رہی ہے۔ NZX50 بھی 8 پوائنٹس نیچے 11230 پر اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔
ایشیائی مارکیٹس (Asian Markets) میں بھی یہی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ Shinghai Composite میں دوران ٹریڈ سست روی نظر آ رہی ہے۔ انڈیکس محض 15 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 3118 اور Nikkei225 انڈیکس 38 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 28028 پر ٹریڈ کر رہے ہیں۔ جغرافیائی صورتحال کے باعث امریکی وال اسٹریٹ (Wall Street) میں ہونیوالی شدید سیلنگ کے بعد Hangseng میں دیگر ایشیائی مارکیٹس کی نسبت مندی کی بڑے لہر دیکھی جا رہی ہے جس کے بعد انڈیکس 216 پوائنٹس کی گراوٹ کے ساتھ 18134 پر آ گیا ہے۔۔ جبکہ ایشیائی انڈیکس CNBC100 بھی 26 پوائنٹس کی مندی کے ساتھ 7765 پر منفی رجحان کا شکار ہے۔ جبکہ TSEC50 بھی 8 پوائنٹس نیچے 14537 پر موجود ہے۔ اسٹریٹ ٹائمز انڈیکس (STI) ملے جلے رجحان اور 3 پوائنٹس اوپر 3278 پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔