Donald Trump کا Gaza Strip پر قبضے کا منصوبہ: عالمی مذمت، قانونی پیچیدگیاں اور Financial Markets
Geopolitical, legal, and financial repercussions of controversial Gaza proposal

Donald Trump کی جانب سے Gaza پر قبضے اور فلسطینیوں کی نقل مکانی سے متعلق حالیہ بیان نے عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ امریکی صدر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا عندیہ دیا کہ Gaza کو مستقل طور پر امریکی کنٹرول میں لایا جا سکتا ہے، اور فلسطینیوں کو وہاں سے نکال کر کسی اور جگہ آباد کیا جا سکتا ہے۔
یہ بیان نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف بھی ہے۔Donald Trump کا یہ منصوبہ درحقیقت ان کے داماد Jared Kushner کی اس پرانی سوچ کا تسلسل ہے، جس میں Gaza کو ایک بین الاقوامی تفریحی مرکز میں تبدیل کرنے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔**
Gaza: بین الاقوامی قانون اور زمین کی ملکیت کے مسائل
Gaza کی زمین فلسطینی عوام کی ملکیت ہے، اور اس پر کسی بھی غیر ملکی طاقت کے قبضے کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمین کی ملکیت عثمانی دور، برطانوی مینڈیٹ، اردنی قوانین اور قبائلی رسم و رواج کے تحت طے پاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں زمین کی خرید و فروخت کا معاملہ پیچیدہ ہے، اور غیر ملکیوں پر زمین خریدنے کی سخت پابندی عائد ہے۔
Donald Trump کا کہنا ہے کہ Gaza کی تعمیر نو ممکن ہے، اور اسے ایک جدید تفریحی مقام میں بدلا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، اگر یہاں موجود انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے تو یہ علاقہ "Monaco” سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، زمینی حقائق اس نظریے کی نفی کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام کے لیے Gaza ایک مقدس اور تاریخی سرزمین ہے، اور ان کی جڑیں اس علاقے میں صدیوں سے پیوست ہیں۔ انہیں وہاں سے زبردستی نکالنا Ethnic Cleansing کے مترادف ہوگا۔
Trump اور Kushner کا Real Estate Vision
یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی صدر نے Real Estate کی نظر سے فلسطینی علاقوں کو دیکھا ہو۔ ان کے داماد Jared Kushner، جو کہ خود ایک بڑی Real Estate فرم کے مالک ہیں، پہلے بھی مشرق وسطیٰ کے سیاسی تنازعات کو کاروباری نقطہ نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ Kushner نے Harvard University میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ اگر لوگ Gaza کے ساحل کے قریب جائیداد خریدنے اور سرمایہ کاری پر توجہ دیں تو یہ جگہ انتہائی قیمتی ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ وہی Kushner ہیں جنہوں نے Abraham Accords کے تحت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر آمادہ کیا تھا۔ ان کے مطابق، Gaza کو اگر دوبارہ تعمیر کیا جائے تو اسے Middle East Riviera بنایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہوگا کہ فلسطینی وہاں سے چلے جائیں۔ ان کا یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق سے یکسر لاعلم یا بے پرواہ ہیں۔
عالمی سطح پر Trump کے بیان کی مذمت
Donald Trump کے اس بیان پر عالمی برادری کی طرف سے سخت ردعمل آیا ہے۔
- Germany کی وزیر خارجہ Annalena Baerbock نے کہا کہ Gaza فلسطینیوں کی زمین ہے. اور انہیں وہاں سے بے دخل کرنا ناقابل قبول ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدام مزید نفرت اور تشدد کو جنم دے گا. اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔
- United Kingdom کے وزیر خارجہ David Lammy نے بھی واضح کیا. کہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں میں رہنے کا مکمل حق حاصل ہے. اور ان کی جبری بے دخلی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔
- France کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ Gaza کی فلسطینی آبادی کو زبردستی بے دخل کرنا مشرق وسطیٰ میں مزید عدم استحکام کو ہوا دے گا. اور Two-State Solution کے لیے رکاوٹ بنے گا۔
- Spain کے وزیر خارجہ José Manuel Albares نے بھی فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ Gaza کی زمین فلسطینیوں کی ہے. اور انہیں وہاں ہی رہنا چاہیے۔
Saudi Arabia اور دیگر عرب ممالک کا مؤقف
Saudi Arabia نے Donald Trump کے منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔ Saudi Foreign Ministry کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا. کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا ناقابل قبول ہے. اور Riyadh اپنے اس مؤقف پر قائم رہے گا. کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی مشرق وسطیٰ میں امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
عرب ممالک کے پانچ وزرائے خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ Marco Rubio کو ایک خط لکھ کر اس منصوبے کی مخالفت کی ہے. جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو زبردستی Gaza سے بے دخل کرنے کا کوئی بھی منصوبہ خطے میں مزید کشیدگی کو جنم دے گا۔
Trump کا اسرائیل کے ساتھ بڑھتا ہوا اتحاد
Donald Trump کی فلسطین پالیسی ہمیشہ سے اسرائیل نواز رہی ہے۔ انہوں نے اپنے دور صدارت میں Jerusalem کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا. اور Golan Heights پر اسرائیلی قبضے کو قانونی قرار دیا۔ اب Gaza کو امریکی کنٹرول میں لانے کا خیال پیش کر کے وہ ایک اور متنازعہ قدم اٹھانے جا رہے ہیں. جو کہ مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
Trump نے اسرائیلی وزیر اعظم Benjamin Netanyahu کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ Gaza کی "ملکیت” حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس علاقے میں ایک "طویل المدتی ملکیت” کی پوزیشن پر ہوگا. اور یہاں تمام خطرناک ہتھیاروں اور عسکری گروپوں کا خاتمہ کرے گا۔ تاہم، ان کا یہ منصوبہ حقیقت سے زیادہ Real Estate کی دنیا کا خواب معلوم ہوتا ہے۔
Gaza کی تعمیر نو: حقیقت یا فریب؟
Trump اور ان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ Gaza کی تعمیر نو کے لیے 100 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ تاہم، مشرق وسطیٰ کے خلیجی ممالک، جن سے سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی تھی، اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں۔ United Arab Emirates اور Saudi Arabia جیسے ممالک واضح کر چکے ہیں کہ جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی، وہ کسی بھی ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے جو فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔
اسلامی دنیا کیلئے ایک نفسیاتی جنگ
فلسطین کی Tragedy درحقیقت ایک کھلا زخم ہے جو ہر مسلمان کے ذہن میں سرایت کر چکا ہے۔ یہ صورتحال مسلمانوں میں Revenge اور Anger کے جذبات کو جنم دے رہی ہے. جو مزید انتہا پسندی کو فروغ دے سکتی ہے۔ اگر فلسطینیوں کو زبردستی Gaza سے بے دخل کیا جاتا ہے. تو اس کے اثرات محض مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہیں گے. بلکہ پوری اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ جائے گی۔
یہ تنازعہ Islamic World اور West کو ایسے دو متضاد کناروں میں تقسیم کر سکتا ہے. جیسے کہ کسی سمندر کے وہ دو کنارے جو کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے۔ اگر اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان مزید خلیج پیدا ہوئی. تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے. جو عالمی سیاست، معیشت، اور سلامتی کے شعبوں میں گہرے نقوش چھوڑ سکتے ہیں۔
Trump کے حالیہ بیان نے فلسطینی عوام کے مستقبل پر ایک نیا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اگرچہ وہ Gaza کو ایک جدید Tourist Destination میں تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں. لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ Ethnic Cleansing اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر ممکن نہیں۔
Gaza کی تاریخ، ثقافت اور سیاست کو نظرانداز کر کے اسے صرف Real Estate کی نظر سے دیکھنا ایک خطرناک سوچ ہے. جو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں مزید کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے. بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ Trump کا یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں. یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن ایک بات طے ہے کہ فلسطینی عوام اپنی زمین سے بے دخل ہونے کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
Financial Markets پر ممکنہ اثرات
Trump کی Gaza پر قبضے کی پالیسی عالمی Financial Markets پر بڑے پیمانے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سرمایہ کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کرے گی. جس کے نتیجے میں درج ذیل اثرات سامنے آ سکتے ہیں:
-
Oil Prices میں اضافہ:
- مشرق وسطیٰ میں تنازعات ہمیشہ Oil Prices میں اضافے کا باعث بنتے ہیں. کیونکہ Gulf Cooperation Council (GCC) کے رکن ممالک عالمی تیل کی سپلائی کے اہم مراکز ہیں۔ اگر فلسطینیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جاتے ہیں. تو Saudi Arabia، Iran اور دیگر اسلامی ممالک امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کر سکتے ہیں. جس سے Oil Supply Chains متاثر ہو سکتی ہیں۔
-
Stock Markets کی غیر یقینی کیفیت:
- Trump کے متنازعہ اقدامات اکثر عالمی Stock Markets میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ بحران شدت اختیار کرتا ہے. تو امریکی Dow Jones، S&P 500، Nasdaq اور یورپی مارکیٹس میں گراوٹ دیکھی جا سکتی ہے. جبکہ مشرق وسطیٰ کے Stock Indices کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔
- Gold اور Safe-Haven Assets میں سرمایہ کاری کا رجحان:
- جب عالمی سطح پر جغرافیائی کشیدگی بڑھتی ہے. تو سرمایہ کار عام طور پر Safe-Haven Assets جیسے Gold، US Treasury Bonds اور Swiss Franc کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس تنازعے کے نتیجے میں Gold Prices میں اضافہ متوقع ہے۔
- US Dollar کی مضبوطی یا کمزوری:
- اگر مشرق وسطیٰ میں یہ بحران طول پکڑتا ہے تو سرمایہ کار US Dollar سے باہر نکل کر دیگر کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں. خاص طور پر Euro اور Yen میں۔ اس کے علاوہ، Gaza بحران کے باعث Federal Reserve اپنی مالیاتی پالیسی میں بھی تبدیلیاں کر سکتا ہے۔
- Cryptocurrency مارکیٹ پر اثرات:
- عالمی تنازعات کے دوران Bitcoin اور دیگر Cryptocurrencies میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے. کیونکہ سرمایہ کار غیر روایتی مالیاتی اثاثوں کی طرف جاتے ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں صورتحال مزید خراب ہوئی تو Crypto Market میں شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔