توانائی کا بحران: یورپی معیشت کی ہائیڈروجن فیول پر منتقلی

توانائی اور کاربن فیولز کےسنگین بحران کے بعد یورپی کمیشن کے ممالک نے توانائی کے لئے قابل تجدید اور ماحول دوست ہائیڈروجن فیول کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔ انرجی سیکٹر کی اس منتقلی کا آغاز ٹرانسپورٹیشن اور ریل گاڑیوں کے نظام سے شروع کیا گیا ہے۔ فرانس اور بیلجیئم کے بعد جرمنی نے بھی ابتدائی طور پر اندرون ملک ٹرین سسٹم کو ہائیڈروجن فیول پر منتقل کر دیا ہے جبکہ اس گرین فیول کو استعمال کرنیوالی بسوں اور دیگر گاڑیاں بھی استعمال ہونا شروع ہو رہی ہیں۔ یہ ٹرینیں اور گاڑیاں فرانس میں ڈیزائن کی گئی ہیں جبکہ انہیں جرمنی میں تیار کیا گیا ہے۔ ہائیڈروجن فیول مقامی طور پر تیار ہونے کے علاوہ کینیڈا سے بھی منگوایا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے یورپی ممالک نے کینیڈین کمپنیوں کے ساتھ کئی سو ارب ڈالر کے معاہدے خئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہائیڈروجن فیول زیرو کاربن کے اخراج والا فیول ہے ۔ ان ٹرینوں اور گاڑیوں کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ خالص ہائیڈروجن فیول پر چلتی ہیں اور ہوا سے آکسیجن کو جذب کرتی ہیں پھر آکسیجن کے تعامل سے ہائیڈروجن فیول جلتا اور توانائی فراہم کرتا ہے ۔ ان کے باہر دو فیول سیلز لگے ہوتے ہیں جو کہ آکسیجن کو جذب کرتے اور ہائیڈروجن فیول سے تعامل کے بعد اسے بجلی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس عمل سے یہ گاڑیاں دھویں اور کیمیائی مادوں کی بجائے بخارات کی شکل میں پانی کا اخراج کرتی ہیں یعنی اس سارے عمل میں زیرو کاربن ایمشنز ہوتے ہیں۔
بلاشبہ پوری دنیا بالخصوص یورپ کے توانائی کے سنگین بحران جس میں روس کی طرف سے گیس و تیل کی بندش کے بعد تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے کے حل کے لئے یہ ایک بڑی کامیابی ہے جس سے 800 ٹن کاربن کے اخراج اور گلوبل وارمنگ کے خاتمے اورماحول کی بقاء کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ تیل و گیس کے بتدریج کم ہوتے ذخائر کے مقابلے میں قابل تجدید ہائیڈروجن اور آکسیجن دنیا کے ایک محفوظ مستقبل کی ضامن ہیں بالکل اسی طرح سے جیسے شمسی توانائی اور ونڈ پاور قابل تجدید ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت 193 بلیئن یورو ہے۔ بیلجیئم، فرانس اور کینیڈا کے بعد جرمنی دنیا کا چوتھا ملک ہے جس نے اپنے انرجی سیکٹر کو اس ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button