Fiscal Policy: The Pillar of Economy and Government Economic Strategy

فِسکل پالیسی (Fiscal Policy): معیشت کا ستون اور حکومتی معاشی حکمتِ عملی

Fiscal policy فِسکل پالیسی کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔جو حکومت کو اپنے مالی وسائل کو منظم کرنے، معیشت کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ایک بنیادی آلہ فراہم کرتی ہے۔ یہ پالیسی براہِ راست حکومت کے بجٹ سے منسلک ہے، جس میں آمدنی (ریونیو) اور اخراجات (ایکسپنڈیچر) کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں، یہ وہ حکمتِ عملی ہے۔ جس کے ذریعے حکومت طے کرتی ہے۔ کہ کہاں سے پیسہ حاصل کرنا ہے اور کہاں خرچ کرنا ہے۔

دنیا کی ہر معیشت، خواہ وہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، فِسکل پالیسی پر انحصار کرتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کا بنیادی مقصد معاشی استحکام کو برقرار رکھنا۔ خاص طور پر افراطِ زر اور بے روزگاری کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ غربت میں کمی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری پر توجہ دینے کے لیے اپنائی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جہاں یہ نہ صرف معاشی ترقی بلکہ معاشرتی استحکام اور غربت کے خاتمے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

Fiscal policy فِسکل پالیسی کی تعریف اور بنیادی تصورات

فِسکل پالیسی کو معاشیات کی اصطلاح میں یوں بیان کیا جاتا ہے:

"فِسکل پالیسی وہ حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے حکومت ٹیکس، اخراجات اور قرضوں کے ذریعے معیشت کو منظم کرتی ہے۔ تاکہ اقتصادی ترقی، روزگار، قیمتوں میں استحکام اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے।”

یہ پالیسی حکومت کی آمدنی اور اخراجات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے حکومت براہِ راست معیشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جب حکومت ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کو بڑھاتی ہے۔ تو معیشت میں سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں۔ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور مجموعی پیداوار (GDP) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب حکومت ٹیکس بڑھاتی ہے۔ یا اخراجات کم کرتی ہے تو عوام کی قوتِ خرید میں کمی آتی ہے اور معیشت میں سست روی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح حکومت معیشت کو مطلوبہ سمت میں لے جانے کے لیے اس آلے کو استعمال کرتی ہے۔

Fiscal policy فِسکل پالیسی کے کلیدی مقاصد اور ان کی اہمیت

فِسکل پالیسی کے کئی اہم مقاصد ہوتے ہیں۔جو کسی بھی ملک کی معیشت کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان مقاصد کی کامیابی ملک کی مجموعی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہایت ضروری ہے۔

• معاشی استحکام: کسی بھی معیشت میں سب سے بڑا مسئلہ افراطِ زر (Inflation) اور کساد بازاری (Recession) ہوتا ہے۔ فِسکل پالیسی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معیشت کو اعتدال پر رکھا جائے  تاکہ نہ تو مہنگائی حد سے بڑھے اور نہ ہی معیشت جمود کا شکار ہو۔ کساد بازاری کی صورت میں توسیعی پالیسی اپنا کر معیشت میں جان ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ افراطِ زر کی صورت میں سکڑاؤ والی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔

• روزگار میں اضافہ: حکومت فِسکل پالیسی کے ذریعے ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کرتی ہے۔ جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ان منصوبوں میں انفراسٹرکچر، صنعت اور زراعت کے شعبے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹیکس میں کمی یا سبسڈی دے کر نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ سرمایہ کاری کریں اور روزگار کے مواقع بڑھیں۔

• اقتصادی ترقی: حکومت کے اخراجات براہِ راست ملکی ترقی سے جڑے ہوتے ہیں۔ سڑکوں، پلوں، بجلی گھروں، اور مواصلات کے منصوبوں پر سرمایہ کاری ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتی ہے، جو طویل المدتی معاشی ترقی کی بنیاد ہے۔ اسی طرح، تعلیم اور صحت پر خرچ کر کے انسانی وسائل کو بہتر بنایا جاتا ہے، جو کسی بھی ملک کی اصل دولت ہیں۔

• دولت کی منصفانہ تقسیم:

فِسکل پالیسی دولت کی تقسیم میں عدم توازن کو کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ترقی پسند ٹیکس (Progressive Taxation) کا نظام، جس میں امیروں پر زیادہ اور غریبوں پر کم ٹیکس لگایا جاتا ہے، دولت کی منصفانہ تقسیم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی، غریب طبقے کو سبسڈیز اور سماجی بہبود کے پروگراموں (جیسے کہ پاکستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام) کے ذریعے براہِ راست مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔

• ادائیگیوں کا توازن (Balance of Payments):

فِسکل پالیسی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، حکومت برآمدات پر سبسڈی دے کر اور درآمدات پر زیادہ ڈیوٹیز لگا کر مقامی صنعتوں کو فروغ دیتی ہے، جس سے ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آتی ہے۔

Fiscal policy فِسکل پالیسی کی اقسام اور ان کا عملی اطلاق

معیشت کی حالت کے مطابق، فِسکل پالیسی کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن کا اطلاق مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔

1. توسیعی فِسکل پالیسی (Expansionary Fiscal Policy):

یہ پالیسی اس وقت اپنائی جاتی ہے جب معیشت کساد بازاری (Recession) کا شکار ہو یا اس کی ترقی کی رفتار سست ہو۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنا ہوتا ہے۔

o اطلاق: حکومت ٹیکسوں میں کمی کر دیتی ہے تاکہ عوام کی ڈسپوزایبل آمدنی بڑھے اور وہ زیادہ خرچ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی، سرکاری اخراجات میں اضافہ کیا جاتا ہے، جیسے کہ نئے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز یا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ۔

o اثر: جب لوگوں کے پاس زیادہ پیسہ آتا ہے تو وہ زیادہ اشیاء اور خدمات خریدتے ہیں، جس سے مارکیٹ میں مانگ (Demand) بڑھتی ہے۔ مانگ بڑھنے سے صنعتوں میں پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، جو روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرتا ہے۔

2. سکڑاؤ والی فِسکل پالیسی (Contractionary Fiscal Policy):

یہ پالیسی اس وقت اپنائی جاتی ہے جب معیشت میں افراطِ زر (Inflation) بہت بڑھ جائے اور قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہوں۔ اس کا مقصد معیشت کو ٹھنڈا کرنا اور مہنگائی پر قابو پانا ہوتا ہے۔

o اطلاق: حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے تاکہ لوگوں کی قوتِ خرید کم ہو اور وہ کم خرچ کریں۔ اس کے ساتھ ہی، سرکاری اخراجات میں بھی کمی کی جاتی ہے، غیر ضروری منصوبوں کو روکا جاتا ہے اور بجٹ میں توازن لایا جاتا ہے۔

o اثر: جب عوام کے پاس کم پیسہ ہوتا ہے تو اشیاء و خدمات کی مانگ کم ہو جاتی ہے۔ مانگ میں کمی سے قیمتوں پر دباؤ کم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں کمی آتی ہے اور معیشت مستحکم ہوتی ہے۔

3. غیر جانبدار فِسکل پالیسی (Neutral Fiscal Policy):

یہ پالیسی اس وقت اپنائی جاتی ہے جب معیشت میں استحکام اور توازن ہو۔ اس کا مقصد صرف موجودہ معاشی صورتحال کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

o اطلاق: اس پالیسی میں حکومت کی آمدنی اور اخراجات تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ نئے بڑے منصوبے شروع نہیں کیے جاتے اور نہ ہی ٹیکسوں میں کوئی بڑی تبدیلی لائی جاتی ہے۔ یہ پالیسی معیشت پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالتی اور اسے اسی رفتار پر چلنے دیتی ہے۔

فِسکل پالیسی کے اہم اوزار (Tools of Fiscal Policy)

حکومت فِسکل پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف اوزار استعمال کرتی ہے، جن میں سے ہر ایک کا معیشت پر ایک مخصوص اثر ہوتا ہے۔

1. ٹیکسیشن (Taxation):

ٹیکس حکومت کی آمدنی کا سب سے بنیادی اور سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے حکومت عوام اور کاروباری اداروں سے پیسہ جمع کرتی ہے۔ ٹیکس کی دو بڑی اقسام ہیں:

o براہِ راست ٹیکس (Direct Taxes): یہ وہ ٹیکس ہیں جو براہِ راست آمدنی یا دولت پر لگائے جاتے ہیں اور ان کا بوجھ کسی دوسرے پر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر انکم ٹیکس (Income Tax) اور کارپوریٹ ٹیکس (Corporate Tax)۔

o بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes): یہ وہ ٹیکس ہیں جو اشیاء اور خدمات کی خریداری پر لگائے جاتے ہیں اور ان کا بوجھ خریدار پر منتقل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سیلز ٹیکس (Sales Tax)، کسٹم ڈیوٹی (Customs Duty) اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (Federal Excise Duty)۔

2. حکومتی اخراجات (Government Spending):

حکومت عوام کی فلاح و بہبود، معاشی ترقی اور ملک کی سیکیورٹی کے لیے مختلف شعبوں میں پیسہ خرچ کرتی ہے۔ ان اخراجات کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

o ترقیاتی اخراجات (Development Expenditures): یہ وہ اخراجات ہیں جو ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس میں سڑکوں، پلوں، ڈیموں، بجلی گھروں اور صنعتی پارکس کی تعمیر شامل ہے۔

o غیر ترقیاتی اخراجات (Non-Development Expenditures): یہ اخراجات حکومت کے روزمرہ کے کام کاج کو چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اس میں دفاع، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، پنشن اور قرضوں کی ادائیگی شامل ہے۔

3. قرضہ جات (Borrowings):

جب حکومت کے اخراجات اس کی آمدنی سے زیادہ ہو جائیں تو بجٹ خسارہ (Budget Deficit) پیدا ہوتا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت قرض لیتی ہے۔ یہ قرضہ دو طرح کا ہوتا ہے:

o اندرونی قرضہ: حکومت ملکی بینکوں اور اداروں سے قرض لیتی ہے۔

o بیرونی قرضہ: حکومت عالمی اداروں (جیسے IMF، World Bank) یا دوسرے ممالک سے قرض لیتی ہے۔

4. سبسڈیز اور ٹرانسفر پیمنٹس (Subsidies and Transfer Payments):

حکومت غریب اور کمزور طبقوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سبسڈیز دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، بجلی، گیس یا آٹے پر سبسڈی۔ ٹرانسفر پیمنٹس میں وظائف، پنشن، بے روزگاری الاؤنس اور دیگر سماجی بہبود کے پروگرام شامل ہیں۔ یہ اخراجات براہِ راست عوامی قوتِ خرید کو بڑھاتے ہیں اور دولت کی تقسیم میں توازن لاتے ہیں۔

فِسکل پالیسی اور کاروباری چکر (Business Cycle) کا تعلق

ہر معیشت وقتاً فوقتاً اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہے، جسے کاروباری چکر (Business Cycle) کہا جاتا ہے۔ فِسکل پالیسی کا اہم کردار اس چکر کے اثرات کو کم کرنا اور معیشت کو مستحکم رکھنا ہے۔

• عروج (Boom): جب معیشت عروج پر ہو تو افراطِ زر بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر حکومت سکڑاؤ والی پالیسی اپنا کر ٹیکس بڑھاتی ہے اور اخراجات کم کرتی ہے تاکہ معیشت میں حد سے زیادہ تیزی نہ آئے۔

• کساد بازاری (Recession): جب معیشت سست روی کا شکار ہو، تو حکومت توسیعی پالیسی اپنا کر اخراجات بڑھاتی اور ٹیکس کم کرتی ہے تاکہ مانگ میں اضافہ ہو اور معیشت بحال ہو سکے۔

• شدید مندی (Depression): شدید مندی کی صورت میں حکومت کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی اخراجات کرنے پڑتے ہیں تاکہ معیشت کو مکمل جمود سے باہر نکالا جا سکے۔

• بحالی (Recovery): بحالی کے مرحلے میں حکومت ایک متوازن اور غیر جانبدار پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہے تاکہ معیشت مستحکم ہو سکے اور دوبارہ بحران کا شکار نہ ہو۔

Fiscal policy فِسکل اور مانیٹری پالیسی کا باہمی تعلق

مانیٹری پالیسی اور فِسکل پالیسی معیشت کو منظم کرنے کے لیے دو اہم اور باہم مربوط حکمتِ عملیاں ہیں۔

• مانیٹری پالیسی:

یہ پالیسی مرکزی بینک کے ذریعے بنائی جاتی ہے، جس کا مقصد شرحِ سود اور زر کی مقدار (Money Supply) کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ مرکزی بینک جب شرحِ سود بڑھاتا ہے تو قرض مہنگا ہو جاتا ہے، جس سے سرمایہ کاری اور اخراجات کم ہوتے ہیں اور مہنگائی پر قابو پایا جاتا ہے۔

• باہمی ہم آہنگی: فِسکل اور مانیٹری پالیسی کو ایک دوسرے کی تکمیل کرنی چاہیے۔ اگر ایک پالیسی توسیعی ہو اور دوسری سکڑاؤ والی، تو ان کے مقاصد میں تضاد پیدا ہو سکتا ہے اور معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے زیادہ قرض لے تو مرکزی بینک کو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرحِ سود بڑھانی پڑتی ہے، جو معاشی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے۔ لہٰذا، دونوں کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فِسکل پالیسی کا موازنہ

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فِسکل پالیسی کے چیلنجز اور اطلاق میں نمایاں فرق ہوتا ہے:

• ترقی یافتہ ممالک: ان ممالک کے پاس زیادہ مالی وسائل ہوتے ہیں، ان کا ٹیکس نیٹ وسیع ہوتا ہے، اور بجٹ خسارہ سنبھالنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ یہ ممالک زیادہ تر معاشی استحکام، افراطِ زر اور بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے فِسکل پالیسی کا استعمال کرتے ہیں۔

• ترقی پذیر ممالک: ان ممالک میں ٹیکس نیٹ محدود ہوتا ہے، زیادہ تر آمدنی براہِ راست ٹیکسوں سے حاصل نہیں ہوتی، اور قرضوں پر انحصار زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں فِسکل پالیسی کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور انسانی ترقی ہے۔ انہیں اکثر کرپشن اور بدانتظامی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں فِسکل پالیسی: ایک تاریخی اور موجودہ جائزہ

پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک فِسکل پالیسی ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔

• ابتدائی سال (1947–1960): اس دور میں دفاعی اخراجات اور بنیادی ضروریات پر زیادہ توجہ رہی۔

• 1970–1990: اس عرصے میں قومیائی (Nationalization) اور پھر نجکاری (Privatization) کی پالیسیوں نے معیشت کو متاثر کیا۔ بجٹ خسارے کا مسئلہ بڑھنا شروع ہوا اور قرضوں پر انحصار میں اضافہ ہوا۔

• 2000–2020: اس دور میں قرضوں پر انحصار مزید بڑھا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی کوششوں میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ پاکستان کو اکثر IMF کے پروگرامز کا سہارا لینا پڑا۔

• موجودہ صورتحال: آج پاکستان کو بجٹ خسارے، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ، افراطِ زر، اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

فِسکل پالیسی کے چیلنجز اور نقصانات

فِسکل پالیسی کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ اہم چیلنجز اور نقصانات بھی ہیں:

• ٹیکس چوری اور بدانتظامی: ترقی پذیر ممالک میں ٹیکس چوری ایک بڑا مسئلہ ہے، جو حکومت کی آمدنی کو کم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کرپشن اور بدانتظامی عوامی وسائل کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔

• قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ: جب حکومت مسلسل بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض لیتی ہے تو قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے، جس کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ یہ ایک شیطانی چکر (Vicious Cycle) ہے۔

• افراطِ زر میں اضافہ:

اگر توسیعی فِسکل پالیسی کا غیر دانشمندانہ استعمال کیا جائے تو اس سے مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے، جو عام عوام کی قوتِ خرید کو متاثر کرتا ہے۔

• سرمایہ کاری پر منفی اثرات: زیادہ ٹیکس اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نجی سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

مستقبل میں فِسکل پالیسی کا کردار اور پاکستان کے لیے حکمتِ عملی

فِسکل پالیسی مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کرے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس کلیکشن کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، جس سے شفافیت میں اضافہ ہوگا اور ٹیکس چوری کو روکا جا سکے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومتیں ماحول دوست منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں گی۔ عالمی تجارتی دباؤ کے تحت حکومتوں کو اپنی پالیسیوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک پائیدار فِسکل پالیسی اپنائے جس میں:

1. ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے: نئے ٹیکس دہندگان کو نظام میں شامل کیا جائے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔

2. غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں: دفاع اور سرکاری اداروں کے اخراجات میں کمی لائی جائے۔

3. قرضوں پر انحصار کم کیا جائے: حکومتی آمدنی میں اضافہ کر کے بجٹ خسارے کو کم کیا جائے۔

4. کرپشن کا خاتمہ کیا جائے: مالی نظم و ضبط کو بہتر بنایا جائے اور شفافیت کو فروغ دیا جائے۔

 

کسی بھی ملک میں مالیاتی پالیسی (fiscal policy) کی نگرانی اور اس پر عمل درآمد کئی اہم ادارے کرتے ہیں، جو حکومتی سطح پر کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کا بنیادی مقصد حکومتی آمدنی (taxes) اور اخراجات کو منظم کرنا ہے تاکہ معیشت مستحکم رہے۔

مالیاتی پالیسی کی نگرانی کرنے والے اہم ادارے

مالیاتی پالیسی کو براہ راست حکومت خود سنبھالتی ہے، اور اس مقصد کے لیے مختلف وزارتیں اور محکمے کام کرتے ہیں۔

• وزارتِ خزانہ (Ministry of Finance): یہ سب سے اہم ادارہ ہے جو مالیاتی پالیسی کی منصوبہ بندی، تشکیل اور عمل درآمد کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ بجٹ تیار کرتا ہے۔ٹیکس کی پالیسیاں بناتا ہے، اور سرکاری اخراجات کی نگرانی کرتا ہے۔ وزارتِ خزانہ ہی وہ ادارہ ہے جو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا انتظام بھی دیکھتا ہے۔

• مرکزی بینک (Central Bank): اگرچہ مرکزی بینک بنیادی طور پر مانیٹری پالیسی (monetary policy) کو سنبھالتا ہے۔ لیکن مالیاتی پالیسی کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مرکزی بینک مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور اقتصادی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے حکومتی قرضوں کا انتظام بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں سٹیٹ بینک آف پاکستان (State Bank of Pakistan) یہ کردار ادا کرتا ہے۔

• پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی (Parliament or Legislative Assembly): کسی بھی ملک میں مالیاتی پالیسی کو پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ادارہ حکومت کے پیش کردہ بجٹ پر بحث اور منظوری دیتا ہے۔ اس طرح یہ عوامی نمائندگی کے ذریعے مالیاتی پالیسی پر نظر رکھتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر کردار

عالمی سطح پر بھی کچھ ادارے ہیں جو مالیاتی پالیسی کے حوالے سے رکن ممالک کو مشورے اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں:

• عالمی مالیاتی فنڈ (IMF): یہ ادارہ رکن ممالک کو مالی امداد اور تکنیکی معاونت (technical assistance) فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ بجٹ خسارے جیسے مسائل کا شکار ہوں۔ آئی ایم ایف اکثر قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط رکھتا ہے جو مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانے پر زور دیتی ہیں۔

• عالمی بینک (World Bank): یہ ادارہ بنیادی طور پر ترقی پذیر ممالک میں غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی (sustainable development) کے لیے مالی امداد اور پالیسی مشورے دیتا ہے۔ اس کے منصوبے اکثر رکن ممالک کی مالیاتی پالیسیوں کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

مختصراً، کسی بھی ملک میں مالیاتی پالیسی کی نگرانی اور انتظام حکومتی اداروں۔ خاص طور پر وزارتِ خزانہ، کے ذریعے ہوتا ہے۔ جبکہ بین الاقوامی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اس میں معاونت اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

نتیجہ

فِسکل پالیسی ایک ملک کی معیشت کا مرکزی ستون ہے۔ یہ عوامی فلاح، ترقی اور استحکام کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر حکومت دانشمندی سے اخراجات اور آمدنی کا توازن برقرار رکھے تو یہ پالیسی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں اپنائی جائیں تو یہ قرضوں، مہنگائی اور معاشی بحران کا باعث بن سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو چاہیے کہ وہ ایک شفاف، متوازن اور پائیدار فِسکل پالیسی اپنائیں تاکہ عوام کو حقیقی معاشی خوشحالی نصیب ہو۔

https://urdumarkets.com/blog/gross-domestic-product-gdp-explained-types-importance-and-forex-market

 

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی چیک کریں۔
Close
Back to top button