برطانوی CPI کے اعداد شمار کے عوام اور ملکی معیشت پر ممکنہ اثرات
افراط زر کے اعداد و شمار کا جائزہ
برطانیہ کی کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعداد و شمار انتہائی تشویشناک ہیں اور ملک میں افراط زر 1971ء کے بعد (4 عشروں کے بعد) تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کے دوران ملک میں افراط زر (Inflation) کی سالانہ (گزشتہ 12 ماہ کی اوسط) شرح 11.1 فیصد پر پہنچ گئی ہے جبکہ اس سے قبل جاری کئے جانیوالے تخمینے میں افراط زر کی شرح 10.7 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی۔ اگر اس رپورٹ کا تقابلہ ستمبر 2022ء کے ساتھ کیا جائے تو گذشتہ رپورٹ میں افراط زر کی شرح 10.1 فیصد رہی تھی جسکے بعد سابق وزیراعظم لز ٹرس ہر شدید تنقید کی گئی تھی۔ اور بالآخر انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ جبکہ موجودہ رپورٹ کے مطابق ماہانہ CPI بھی 2 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے 1.7 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق حقیقی افراط زر (Core Inflation) کی سالانہ شرح 6.5 فیصد رہی ہے جبکہ متوقع حقیقی افراط زر 6.4 فیصد تھی۔ دوسری طرف ماہانہ حقیقی افراط زر میں0.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جسکے 0.6 فیصد بڑھنے کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی۔
معاشی اعشاریوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
جاری کیا جانیوالا ڈیٹا توقعات کے برعکس انتہائی تشویشناک ہے اور اسکے منفی اثرات FTSE100 اور دیگر برطانوی معاشی اعشاریوں پر مرتب ہونے کی توقع ہے۔ لیکن افراط زر کے بڑھنے سے برطانوی پاؤنڈ (GBP) کی طلب (Demand) میں اضافہ ہونے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے جس سے اس کی قدر میں اضافے کی توقع ہے۔ تاہم معیشت پر اسکے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے بالخصوص فوڈ اینڈ انرجی سیکٹر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ جبکہ موسم سرما میں ان میں زبردست اضافہ متوقع ہے۔ جس سے کاروباری طبقہ (Corporate Sector) مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔