افراط زر کو کنٹرل کرنے کے تین ماڈلز ۔

       ہر سال جولائی کا مہینہ معاشی سال کا پہلا مہینہ ہونے کے ناطے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ اس میں نئے سال کی پالیسیوں کا تعین بھی کیا جاتا ہے اور ختم ہونیوالے مالی سال کی معاشی رپورٹس بھی جاری کی جاتی ہیں۔ لیکن جولائی 2022 ء کو عالمی معاشی بحران، کساد بازاری اور دنیا بھر میں سنٹرل بینکس کی طرف سے شرح سود میں مسلسل اضافے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ پہلے میں ذکر کروں گی سینٹرل بینکس کے ریٹس میں اضافے کا اور اس کے ڈالر کی ماہانہ بالخصوص جولائی کے اختتامی ہفتے کی پرفارمنس کا۔ معاشی بحران ہمیشہ اپنے ساتھ افراط زر لے کر آتے ہیں ۔ جب بھی کسی معیشت میں افراط زر بڑھتا ہے تو کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے جسے کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک روائتی اصول ہے جسے رائج کر کے ملک اپنی معیشت کو کساد بازاری سے بچاتے ہیں۔  لیکن 2022 ء میں تین ماڈل ہمارے سامنے آئے۔ پہلا امریکی ماڈل جس میں فیڈرل ریزرو نے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے اور بہترین حاصلات کے باوجود شرح سود بڑھا دی ۔ یہ حفظ ماتقدم کے طور پر اٹھایا جانیوالا اقدام تھا تا کہ افراط زر کے منفی اثرات امریکی معیشت کو متاثر نہ کر سکیں۔ لیکن اسکے منفی اثرات سامنے آئے۔ ڈالر چونکہ عالمی مالیاتی نظام کا پیمائشی یونٹ بھی ہے اس لئے ڈالر کے کٹ ریٹ میں اضافے نے دنیا کی تمام حقیقی اعر ڈیجیٹل کرنسیز کو غیر مستحکم کر دیا۔ یہاں ضرورت تھی کسی دوسری تقابلی کرنسی کی جو کہ ڈالر کی طلب کے توازن کو برقرار رکھ سکے لیکن بدقسمتی سے یورو پہلے سے یوکرائن جنگ اور افراط زر کی وجہ سے غیر مستحکم تھا اور ایشیائی طاقتور معیشتوں میں جاپانی ین جاہانی مرکزی بینک کی نرم مانیٹری پالیسی کی وجہ سے مسلسل گراوٹ کا شکار تھا ۔ یہی ہمارا دوسرا ماڈل ہے یعنی جاپانی معیشت جس کے سنٹرل بینک نے نہ تو شرح سود میں اضافہ کیا اور نہ ہی کمی بلکہ بینک آف جاپان کے گورنر ہاری ہیکو کروڈا مسلسل نرم مانیٹری پالیسی کو مرحلہ وار نافذ کرتے رہے لیکن جاپانی ین مسلسل چار ماہ تک گراوٹ کا شکار رہا۔ اسوقت دنیا بھر کے معاشی ماہرین اسے ایک غیر دانشمندانہ پالیسی قرار دے رہے تھے کیونکہ دوسری طرف  امریکی فیڈرل ریزرو کی شرح سود میں مسلسل اضافے کی پالیسی بظاہر ڈالر کو نئی بلندیوں پر پہنچا رہی تھی ۔ لیکن جب دنیا بھر کے مرکزی بینکوں نے افراط زر سے بچنے کے لئے فیڈرل ریزرو کی طرح شرح سود میں مسلسل اضافہ کیا تو فاریکس ریزروز غیر مستحکم ہوتے گئے اور آخرکار ڈالر سمیت سبھی کرنسیز دباو کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول نہ کر سکیں ۔ یہاں افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے جاپانی ماڈل اگرچہ سست تھا لیکن مارکیٹ کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ موثر ثابت ہوا۔ تیسرا ماڈل وہ ہے جس نے شرح سود میں مسلسل کمی کے ذریعے ترکش اکانومی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ۔ ترکی کے صدر طیب اردگان شرح سود میں بتدریج کمی کرتے چلے گئے۔ افراط زر 80 فیصد کے قریب پہنچ گئی جس سے نمٹنے کے لئے جب نھی مرکزی بینک کے جس بھی گورنر نے شرح سود بڑھانے کی تجویز دی اسے قرآنی آیات کے حوالے دے کر ہٹا دیا گیا ۔ معاشی اصولوں سے ہٹ کر اپنائی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں ٹرکش لیرا مسلسل گراوٹ کا شکار رہا یہاں تک کہ 2005 تک ڈالر سے زیادہ مستحکم اور قدر رکھنے والی کرنسی آج اپنی 80 فیصد قدر کھو چکی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں طیب اردگان نے جنوری 2022 ء میں بیرونی کرنسیز میں رقم کے انخلاء پر پابندی عائد کر کے اسے لیرا سے مشروط کر دیا جسکے بعد بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے اپنے سرمائے کو ڈیجیٹل اثاثوں میں تبدیل کیا اور اس طرح اربوں ڈالرز ترکی کی معیشت سے نکل گئے۔ اس طرح کی دنیا کی تیرھویں بڑی معیشت یوکرائن جنگ سے پہلے ہی کساد بازاری کی لپیٹ میں آ گئی۔ اب بھی طیب اردگان لیرا ٹریڈ کے معاہدے کرنے میں مصروف ہیں اور انکی معاشی پالیسیاں اور اقدامات یورپ کی دوسری بڑی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے میں مصروف ہے کیونکہ ظاہر ہے ٹرکش لیرا کی طلب ڈالر یا یورو کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی لیرا ڈالر اور گولڈ کی طرح عالمی ٹریڈ کا مرکزی یونٹ ہے ۔ ان سب پالیسیوں کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ترکی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button