دنیا کو گرین انرجی سے روشن کرتی چینی سولر انرجی کی بڑھتی ہوئی ایکسپورٹس

ریسرچ آرٹیکل : عدیل خالد ۔۔۔    گلوبل وارمنگ دنیا کے لئے کتنا سنگین خطرہ ہے اس کی ہلکی سی جھلک اس سال دنیا نے دیکھی جبکہ ماحولیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے لئے کتنی تباہی کا سبب بن سکتی ہے اسکا تصور بھی ہولناک ہے۔ ناقابل برداشت حد تک بڑھتا ہوا درجہ حرارت، پگھلتے ہوئے گلیشیئرز، خشک سالی اور قحط۔ کینسر اور دیگر بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح۔ یہ اس سیارے جسے کرہ ارض کہا جاتا ہے پر زندگی کے مستقبل کی کہانی کا خلاصہ ہے۔گلوبل وارمنگ میں سب سے بڑا حصہ انسانی سرگرمیاں ڈال رہی ہیں خاص طور پر کاربن اور الٹرا وائیلٹ ایمشنز محولیاتی تناسب کو تیزی سے بدل رہی ہیں۔ آج پوری دنیا قابل تجدید انرجی جسے گرین انرجی بھی کہا جاتا ہے پر منتقل ہو رہی ہے کیونکہ صاف ستھری انرجی ہی صاف ستھرے ماحول کی ضامن ہے۔ اگر اس حوالے سے معاشی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو چینی مرکزی بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس سال چین کی شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹس میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ چین کے سولر پینلز اور منی گرڈ اسٹیشنز اس وقت نہ صرف دنیا بھر کو روشن کر رہے ہیں بلکہ چینی ایکسپورٹس کے پانچ بڑے شعبوں میں سے ایک ہے۔ چینی معیشت شمسی اور گرین ٹیکنالوجی سے اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی جس کے بعد آج چین کئی دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی نہ صرف اپنی بالادستی قائم کر چکا ہے بلکہ اس ٹیکنالوجی کی قیمتوں کو بھی اس حد تک نیچے لے آیا ہے کہ آج یہ ٹیکنالوجی اور اسکے آلات ہر طبقے کے لئے قابل برداشت ہیں چین کی ہنڈرڈ ڈالر ٹیکنالوجی نے مڈل اور لوئر طبقوں کو بھی اس ٹیکنالوجی کے صارفین بنا دیا ہے جو کبھی صرف ایلیٹ کلاس کے لئے  ہی مخصوص تھی۔ 2021 ء میں چین کی فوٹو وولٹیک انڈسٹری نے 250 گیگا واٹ کے سولر پینلز دنیا کو ایکسپورٹ کئے ۔ چینی ٹیکنالوجی قابل تجدید اور گرین انرجی میں انتہائی جدت بھی لے کر آئی ہے۔ چینی کے رینیو ایبل انرجی کے بڑے ٹریڈ پارٹنرز بھارت، برازیل، جرمنی اور ملائیشیا ہیں ۔ بھارت اس حوالے سے ہر گاوں کے لئے ایک سولر زون کے منصوبے پر کام کر رہا ہے اور چین کی فوٹو وولٹیک انڈسٹری کا 35 فیصد ٹریڈ کا شراکت دار ہے جبکہ جرمنی شمسی توانائی کا خود ایک بڑا ایکسپورٹر ہے 2030 سے 2035 کے درمیان اپنی انرجی اور معیشت کا 40 فیصد حصہ گرین اور فوٹو وولٹیک ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا اعلان کر چکا ہے  سالانہ 25 بلیئن ڈالرز سے زائد کی سولر ٹیکنالوجی چین سے درآمد کر رہا ہے۔ جبکہ پوارے یورو زون کے گرین یورو منصوبے کے بعد چینی ایکسپورٹس کے نئی بلندیوں پر پہنچنے کے امکانات ہیں۔ اس شعبے میں چینی بالادستی کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی شمسی توانائی کے پینلز اور دیگر آلات بنانے والی 6 سب سے بڑی کمپنیاں چینی ہیں جن میں  سولر پاور انرجی، جنکو سولر، لونگی گرین انرجی ٹیکنالوجی اور ٹرائنا سولر شامل ہیں۔ ان میں سے جنکو سولر ہی 100 گیگا واٹس سے زائد مے سولر پینلز ایکسپورٹ کر رہی ہے جو بیک وقت پاکستان جتنے سائز کے 40 ملکوں کو بیک وقت روشن کر سکتے ہیں اور جنکی مالیت اتنے ملکوں کے ہی سالانہ بجٹ کے برابر ہے۔ دنیا میں گرین، رینیو ایبل اور صاف ستھری توانائی  کا شعور بڑھنے کے ساتھ اسکی مارکیٹ بھی پھیلتی جا رہی ہے ، ایک ایسی مارکیٹ جس پر بلاشبہ چین کی بالادستی ہے اور بلاشرکت غیرے چین ہی حکومت کر رہا ہے

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button