پاکستان اور Bangladesh کے درمیان نئے تجارتی تعلقات: جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز

Both brotherly Nations has started a new era after a decades old Mini–Cold War

Pakistani Capital Markets میں سرمایہ کار اور کاروباری کمیونٹی ہمیشہ علاقائی اور بین الاقوامی تجارتی تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے کامرس چیف کا ڈھاکہ کا دورہ ایک ایسی اہم پیش رفت ہے. جو صرف سفارتی نہیں بلکہ اقتصادی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ یہ دورہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان Pak Bangladesh Trade Relations کو مضبوط بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے. جو کئی دہائیوں کی سیاسی سرد مہری کے بعد اب ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔

اس دورے کا مقصد دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا، نئی سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا اور کاروباری رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف تجارتی حجم میں اضافہ ہو گا. بلکہ یہ Pakistan Stock Exchange میں نئے مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے۔

اہم نکات

  • پاکستان کے کامرس چیف کا ڈھاکہ کا دورہ Pak Bangladesh Trade Relations کو بڑھانے کی ایک اہم کوشش ہے۔

  • یہ دورہ 1971 کے بعد پہلی بار سرکاری سطح پر براہِ راست تجارتی روابط کی بحالی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

  • اس سے ٹیکسٹائل، چاول، سیمنٹ، اور حلال خوراک کی مصنوعات جیسے شعبوں میں تجارت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔

  • بڑھتی ہوئی تجارت سے پاکستانی برآمدی کمپنیوں کے حصص (Stocks)، لاجسٹکس اور بینکنگ کے شعبوں میں نئی دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے۔

  • ماضی کی رکاوٹوں اور جغرافیائی سیاسی چیلنجز کے باوجود، یہ پیش رفت دونوں معیشتوں کے لیے ایک پائیدار اور فائدہ مند مستقبل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی تعلقات کیوں اہم ہیں؟

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات علاقائی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف جنوبی ایشیا میں واقع ہیں. بلکہ ان کی معیشتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک بچھڑے ہوئے بھائی ہیں. جو کہ بھارت اور اسکے حمایتی ٹولے کی سازشوں سے جدا ہوئے.

بنگلہ دیش، ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت (Emerging Economy) ، کے پاس Textile اور کپڑے کی مصنوعات میں مہارت ہے. جبکہ پاکستان زراعت، کپاس، سیمنٹ اور معدنیات جیسے شعبوں میں مضبوط ہے۔

Pak Bangladesh Trade Relations کا فروغ نہ صرف دونوں ممالک کی معاشی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے. بلکہ خطے میں ایک نیا تجارتی بلاک (Trade Block) بھی تشکیل دے سکتا ہے۔

میں نے مالیاتی منڈیوں میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک کام کرتے ہوئے یہ بات بارہا دیکھی ہے کہ جب بھی کوئی دو ممالک سیاسی تناؤ کو پسِ پشت ڈال کر اقتصادی تعاون کی طرف بڑھتے ہیں. تو اس کا سب سے پہلا مثبت اثر ان کی متعلقہ اسٹاک مارکیٹوں پر پڑتا ہے۔

خاص طور پر برآمدی شعبے میں سرگرم کمپنیاں (Export-Oriented Companies) اور لاجسٹکس کے شعبے کو فوری طور پر نئی امید ملتی ہے۔ اس طرح کی خبریں عموماً مارکیٹ میں نئی توانائی لاتی ہیں. جو کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کا ایک واضح اشارہ ہوتا ہے۔

دوطرفہ تجارت کا حجم کتنا ہے اور اسے کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟

فی الحال، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم نسبتاً کم ہے. تاہم اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ تجارتی حجم تقریباً 1 ارب ڈالر کے قریب ہے. لیکن ماہرین کے مطابق اسے آسانی سے 2 سے 3 ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ نجی شعبے کی کوششوں سے حال ہی میں بحال ہونے والے Pak Bangladesh Trade Relations کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

تجارتی حجم میں اضافے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

  1. غیر ٹیرف رکاوٹوں کا خاتمہ (Removal of Non-Tariff Barriers): ویزا پالیسی میں نرمی اور کاروباریوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا۔

  2. براہِ راست شپنگ کی بحالی: دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست سمندری راستوں کی بحالی سے وقت اور لاگت میں بچت ہوگی۔

  3. تجارتی نمائشیں اور وفود کا تبادلہ: دونوں ممالک کے کاروباری برادریوں کے درمیان براہِ راست رابطے قائم کرنا۔

مجھے یاد ہے کہ رواں سال  جب ایک اور پڑوسی ملک Sri Lanka کے ساتھ تجارتی مذاکرات شروع ہوئے تھے. تو سب سے بڑی رکاوٹ دونوں ممالک کی بندرگاہوں کے درمیان طویل اور مہنگے شپنگ روٹس تھے۔

جب ان روٹس کو براہِ راست کیا گیا. تو نہ صرف مال کی ترسیل (Cargo Delivery) تیز ہوئی. بلکہ لاجسٹکس کی کمپنیاں اور ان کی ذیلی صنعتیں (Ancillary Industries) بھی متحرک ہو گئیں. جس سے ان کے حصص کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یہ ایک ایسا بنیادی محرک ہے. جسے فنانشل مارکیٹس تیزی سے پکڑ لیتی ہیں۔

مالیاتی منڈیوں پر اس دورے کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

Pak Bangladesh Trade Relations کے فنانشل مارکیٹس پر کئی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

  • برآمدی شعبہ (Export Sector): سیمنٹ، ٹیکسٹائل، چاول، اور کیمیکل کی صنعتوں سے وابستہ پاکستانی کمپنیاں سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ان کی آمدنی میں اضافے کی امید سے ان کے حصص کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔

  • لاجسٹکس اور بینکنگ: جیسے جیسے تجارت کا حجم بڑھے گا. اس کے ساتھ ہی شپنگ، لاجسٹکس، اور تجارتی مالیات (Trade Finance) میں شامل بینکوں کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔ یہ وہ شعبے ہیں جو براہِ راست تجارتی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔

  • سرمایہ کاروں کا اعتماد (Investor Confidence): ایک مستحکم اور بڑھتی ہوئی تجارتی پالیسی سے ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے۔ یہ ملکی کریڈٹ ریٹنگ (Credit Rating) اور غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI) میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

Financial Markets میں ایک بڑا اصول یہ ہے کہ جہاں بھی آپ کو ٹھوس اور پائیدار اقتصادی ترقی کے آثار نظر آئیں. وہاں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں۔ سیاسی بیانات وقتی ہوتے ہیں. لیکن جب حکومتیں ٹھوس اقدامات کرتی ہیں جیسے تجارتی وفود بھیجنا یا ویزا پالیسیوں میں نرمی لانا، تو یہ بتاتا ہے کہ ارادے حقیقی ہیں۔

میرا مشورہ ہے کہ ایسے مواقع پر صرف سطحی خبروں پر دھیان دینے کے بجائے، ان شعبوں کی کمپنیوں کی بنیادی تحقیق (Fundamental Analysis) کریں جنہیں براہ راست فائدہ پہنچنے والا ہے۔

اس پیش رفت میں کیا ممکنہ رکاوٹیں ہو سکتی ہیں؟

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، پھر بھی کچھ ممکنہ رکاوٹیں موجود ہیں:

  • سیاسی اور تاریخی تناؤ: ماضی کے سیاسی اختلافات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں۔

  • بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure): تجارتی راستوں اور بندرگاہوں کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتے ہوئے تجارتی حجم کو سنبھالا جا سکے۔

  • علاقائی مسابقت (Regional Competition): دیگر ممالک، خاص طور پر خطے کے بڑے تجارتی شراکت دار، اس بڑھتی ہوئی تجارت پر منفی ردعمل دے سکتے ہیں۔

 ایک پائیدار اور منافع بخش سمت؟

پاکستان کے کامرس چیف کا ڈھاکہ کا دورہ ایک اہم اشارہ ہے کہ دونوں ممالک اپنی تاریخ کو ایک طرف رکھ کر مستقبل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں اور دونوں ممالک میں سیاسی استحکام برقرار رہتا ہے تو Pak Bangladesh Trade Relations صرف ایک عنوان نہیں رہیں گے، بلکہ یہ ایک نئے اقتصادی دور کا آغاز ثابت ہوں گے۔

ایک ایسے سرمایہ کار کے طور پر جو برسوں سے اس مارکیٹ میں ہے، میں جانتا ہوں کہ تجارتی تعلقات کی بہتری نہ صرف دونوں ممالک کی معیشتوں کے لیے بلکہ سرمایہ کاروں اور کاروباروں کے لیے بھی نئے اور منافع بخش مواقع لے کر آتی ہے۔ اس دور میں، جہاں بین الاقوامی تعاون کی اہمیت بڑھ رہی ہے. ایسے اقدامات معاشی ترقی کی بنیاد بنتے ہیں۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ پیش رفت پاکستان کی مالیاتی منڈیوں میں حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے؟ نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔

 

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button