Donald Trump کا حقیقی ہدف اور Trade War کے سنگین نتائج.
An analysis of Donald Trump's real objectives behind the Trade War with China and its potential long-term impacts

امریکی صدر Donald Trump کی جانب سے شروع کی گئی Trade War کا اصل رخ اب نمایاں ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ محاذ اب United States اور China کے درمیان براہ راست تصادم بن چکا ہے. بجائے اس کے کہ یہ پوری دنیا کے خلاف کوئی وسیع تجارتی معرکہ ہو۔
حال ہی میں، کئی ممالک پر لگائے گئے اضافی Tariffs عارضی طور پر 90 دنوں کے لیے ملتوی کیے گئے. حالانکہ 10 فیصد Tariff اب بھی لاگو ہے۔ مگر China کو، جو United States کی مجموعی درآمدات کا 14 فیصد سامان مہیا کرتا ہے. خصوصی نشانہ بناتے ہوئے 125 فیصد Tariff کا سامنا ہے۔
Donald Trump نے کہا کہ یہ اقدام China کی جانب سے 84 فیصد Tariff عائد کرنے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ رویہ Disrespectful ہے۔
Global Power بننے کی دوڑ: اصل ہدف صرف China؟
Trump نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر کہا کہ اب امریکی کمپنیوں کے لیے ملک میں واپس آنے کا بہترین وقت ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں انہیں فوری توانائی کی سہولیات، Zero Tariffs اور کم بیوروکریسی کا سامنا ہو گا۔
یہ صرف ایک ردعمل نہیں، بلکہ ایک پرانا مشن ہے. جو Trump اپنی پہلی مدتِ صدارت میں مکمل نہ کر سکے۔ ان کے بقول، "اب ہمارے پاس صحیح کام کرنے کا وقت ہے۔”
Trump نہ صرف China کی Manufacturing Power کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ وہ اس سوچ کو بھی رد کرتے ہیں کہ زیادہ Trade کا مطلب لازمی طور پر بہتر معیشت ہے۔
یہ نظریہ، کہ بڑھتی ہوئی تجارت سے Political Reform ممکن ہے، بھی China میں ناکام ہو چکا ہے۔ وہاں کی Communist Party نے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کی ہے۔
Made in China 2025 – خطرے کی گھنٹی؟
2015 میں China نے "Made in China 2025” منصوبہ پیش کیا، جس میں Electric Vehicles، Artificial Intelligence، Robotics، Semiconductors اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں عالمی لیڈر بننے کی خواہش ظاہر کی گئی۔ یہ پالیسی صرف صنعتی ترقی تک محدود نہ تھی. بلکہ چین کے اس ارادے کی عکاس تھی. کہ وہ دنیا میں High-Tech Manufacturing کا مرکز بننا چاہتا ہے۔
اگلے ہی سال Donald Trump نے صدارتی دوڑ میں حصہ لیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ China کی ترقی نے امریکی صنعت کو کمزور کیا ہے. خاص طور پر Rust Belt States جیسے Michigan اور Pennsylvania میں روزگار کے مواقع تیزی سے ختم ہو رہے تھے۔
جب Donald Trump صدر بنے، تو انہوں نے اس تصور کے ساتھ Trade War شروع کی کہ چین کی Export-Driven Economy امریکی روزگار کے مواقع چھین رہی ہے. اور امریکی کمپنیوں کو کم قیمت پر سامان فراہم کر کے US Market پر غلبہ حاصل کر رہی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا، تو چین نہ صرف ٹیکنالوجی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا بلکہ اس کا Strategic Influence بھی بڑھ جائے گا۔
اسی لیے Trump Administration نے "Made in China 2025” کو ایک واضح خطرہ تصور کیا. اور کئی اقدامات کیے تاکہ چین کو جدید ٹیکنالوجی کی عالمی دوڑ میں پیچھے رکھا جا سکے. جن میں Export Controls, Investment Restrictions، اور Technology Transfer Barriers شامل تھے۔
Biden کی پالیسی اور جاری کشمکش
اگرچہ Joe Biden نے صدارت سنبھالنے کے بعد زیادہ تر Trump Tariffs کو برقرار رکھا. پھر بھی China کے Economic Model کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ China اب بھی دنیا بھر کی 60 فیصد Electric Cars اور 80 فیصد Batteries تیار کرتا ہے. اور یہ صنعتیں چین کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بنی ہوئی ہیں۔
Biden Administration نے چین کے ساتھ تعلقات میں ایک نیا نقطہ نظر اپنانا شروع کیا . لیکن تجارتی جنگ کے اثرات ان کے دور میں بھی نمایاں رہے۔ بائیڈن کے دور میں بھی، China کی تیز رفتار ترقی کو روکنا ایک چیلنج بنا رہا۔ تاہم، بائیڈن نے چین کے ساتھ اپنی تجارت میں متوازن پالیسی اپنانے کی کوشش کی. تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ کم ہو اور عالمی معیشت میں استحکام برقرار رہے۔
لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ چین کی بڑھتی ہوئی Technological Superiority اور Manufacturing Power امریکی کمپنیوں اور عالمی تجارت کے لیے خطرہ بنی رہی ۔ Biden Administration نے چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی کوششیں کیں. مگر ان کی پالیسیاں نہ تو مکمل طور پر چین کے ماڈل کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو سکیں. اور نہ ہی عالمی سطح پر US-China Relations کو بہتر کرنے میں۔
جنگ کا نیا دور: کیا چین مذاکرات کرے گا؟
اب جب کہ Donald Trump دوبارہ منظر پر آ چکے ہیں. Trade War ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا China مذاکرات کرے گا؟ اور اگر کرے گا تو کیا وہ United States کی شرائط مانے گا. خاص طور پر Export-Based Economy میں تبدیلی کی شرط؟
یہ بات واضح نہیں، لیکن موجودہ حالات میں China کسی دباؤ میں آتا نظر نہیں آتا۔ Chinese Government کا موقف واضح ہے: وہ Multilateral Trade Rules کی حمایت کرتا ہے، جہاں سب کے لیے ایک جیسے اصول ہوں۔
امریکہ خود کس اصول پر کھڑا ہے؟
ایک اہم سوال جو United States کو خود سے پوچھنا ہو گا وہ یہ ہے: کیا وہ اب بھی Free Trade پر یقین رکھتا ہے؟ Donald Trump کا ماننا ہے کہ Tariffs مقامی صنعت کو فروغ دیتے ہیں اور Domestic Investment بڑھاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پالیسیاں امریکی معیشت کو خود کفیل بنانے کی طرف ایک قدم ہیں. جہاں ملک اپنی پیداوار اور روزگار کے مواقع خود پیدا کرے، بجائے اس کے کہ وہ دوسرے ممالک پر انحصار کرے۔
لیکن ناقدین کے مطابق یہ نقطہ نظر Global Supply Chains کو نقصان پہنچا سکتا ہے. جو اب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ممالک اور کمپنیوں پر مبنی ہیں۔ Protectionism کی طرف جھکاؤ بین الاقوامی تجارت میں امریکہ کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے. خاص طور پر ان ممالک کے درمیان جو Multilateral Agreements پر انحصار کرتے ہیں۔
اگر امریکہ خود Rules-Based Trading System سے ہٹتا ہے، تو اس کے اتحادیوں کو بھی اپنی اقتصادی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے موجودہ اور مستقبل کے اقدامات پوری دنیا کے لیے نہ صرف معاشی، بلکہ Geopolitical حوالے سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
اگر China کو یقین ہو جائے کہ اصل ہدف صرف اُسے معاشی طور پر کمزور کرنا ہے، تو وہ مذاکرات کی ضرورت ہی محسوس نہ کرے اور یوں دونوں ممالک ایک خطرناک Trade Standoff میں الجھ سکتے ہیں، جس کا انجام دنیا بھر کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
ممکنہ نتائج: دنیا کا نیا تجارتی منظرنامہ
اس تنازع کے اثرات نہ صرف United States اور China بلکہ پوری Global Economy پر مرتب ہوں گے۔ اگر یہ کشمکش شدت اختیار کرتی ہے تو ایک ایسی Economic War جنم لے سکتی ہے. جس میں فاتح کو دنیا کی سب سے بڑی Economic Power کا تاج ملے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ایک غیر متوقع اور ممکنہ طور پر خطرناک مستقبل بھی تشکیل پا سکتا ہے۔
اگر یہ Trade War عالمی سطح پر پھیلتا ہے، تو Supply Chains میں رکاوٹیں، تجارت کی مہنگائی، اور غیر متوقع اقتصادی بحران پیدا ہو سکتے ہیں۔ Emerging Economies، جو ابھی تک China یا United States کے تجارتی تعلقات پر انحصار کر رہی ہیں. شدید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، عالمی مارکیٹ میں Investment Flows متاثر ہو سکتے ہیں. اور عالمی سطح پر اقتصادی عدم استحکام میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایک اور ممکنہ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں طاقتیں اپنی تجارتی پالیسیوں کو دنیا بھر میں پھیلانے کی کوشش کریں گی. جس سے ایک نئی Bipolar Economic System پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسے حالات میں، بین الاقوامی تجارتی اداروں اور معاہدوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت بڑھ جائے گی. تاکہ عالمی معیشت کو متوازن اور محفوظ رکھا جا سکے۔
Tariff War کا زمینی اثر
Chinese Ministry of Finance کے مطابق امریکہ سے آنے والی اشیا پر Tariffs درحقیقت 34 فیصد سے بڑھا کر 84 فیصد کر دیے گئے ہیں۔ یہ ان تمام امریکی کمپنیوں کے لیے دھچکا ہے. جو Chinese Market میں اپنا سامان فروخت کرتی ہیں۔
ممکنہ طور پر Beijing کی طرف سے مزید سخت اقدامات بھی سامنے آ سکتے ہیں. اور چین واضح کر چکا ہے کہ اگر Trump نے Tariffs 104 فیصد تک بڑھائے تو وہ بھی بھرپور ردعمل دے گا۔
دوسری جانب Chinese State Media ان ممالک کا مذاق اڑا رہے ہیں. جو Washington سے Tariff Relief کی درخواستیں کر رہے ہیں۔
اب دنیا دو بڑی Economic Superpowers کے بیچ ایک فیصلہ کن جنگ کے دہانے پر ہے۔ کیا ہم ایک نئے Global Trade Order کی جانب بڑھ رہے ہیں. یا یہ محض ایک وقتی سیاسی حربہ ہے؟ وقت ہی فیصلہ کرے گا. لیکن عالمی سطح پر بے یقینی کی فضا ضرور قائم ہو چکی ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔