Pakistan Auto Sector خطرے میں – Indus Motors کا Used Car Imports پر بڑی وارننگ.
Toyota Assembler cautions that National Tariff Policy 2025–30 may weaken domestic industry and threaten jobs
پاکستان کی آٹو انڈسٹری ایک بڑے مالی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے. کیونکہ Toyota Assembler یعنی Indus Motors Company (INDU) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اگر Used Car Imports پر پابندیاں نرم کی گئیں تو اس کے نتائج نہ صرف آٹو سیکٹر بلکہ معیشت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
Pakistan Stock Exchange میں جاری کردہ رپورٹ میں کمپنی کے مطابق National Tariff Policy (2025–30) میں شامل اقدامات اگرچہ عالمی پریکٹسز کے مطابق ہیں. مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کی مقامی آٹو انڈسٹری کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔
اہم نکات.
-
Indus Motors نے خبردار کیا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی آسان درآمدات سے پاکستان کا آٹو سیکٹر بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔
-
مالی سال 2024-25 میں 40,000 سے 45,000 پرانی گاڑیاں درآمد کی گئیں، جو مقامی پیداوار کے ایک تہائی کے برابر ہے۔
-
مقامی آٹو انڈسٹری کی پیداواری صلاحیت کا 60% سے زیادہ حصہ استعمال نہیں ہو رہا، جس کی بڑی وجہ پرانی گاڑیوں کی مسلسل آمد ہے۔
-
مقامی صنعت کو ترقی دینے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل، ٹیکسوں میں کمی، اور پیداواری صلاحیت کو مکمل طور پر استعمال کرنا ضروری ہے۔
-
اس صورتحال کو نظر انداز کرنے سے ملک کی صنعتی ترقی اور روزگار کے مواقع پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کیا پرانی گاڑیوں کی درآمدات واقعی ایک خطرہ ہیں؟
Indus Motors کے سالانہ رپورٹ کے مطابق، پرانی گاڑیوں کی درآمدات نہ صرف ایک خطرہ ہیں. بلکہ یہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے ایک سنگین رکاوٹ بن چکی ہیں۔ یہ گاڑیاں درآمدی بل (Import Bill) میں اضافہ کرتی ہیں. جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈالتا ہے۔ مزید برآں، یہ مقامی پلانٹس کی پیداواری صلاحیت (Production Capacity) کو استعمال کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
آسان الفاظ میں، جب زیادہ پرانی گاڑیاں باہر سے آتی ہیں، تو مقامی کمپنیوں کی نئی گاڑیاں کم بکتی ہیں۔ اس سے ان کا منافع (Profit) کم ہوتا ہے. انہیں اپنی پیداواری لائنیں بند کرنی پڑتی ہیں. اور بالآخر یہ صورتحال صنعت میں ملازمتوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
مالی سال 2024-25 میں 40,000 سے 45,000 پرانی گاڑیاں درآمد ہوئیں، جو مقامی مینوفیکچررز کی کل فروخت (Total Sales) کا تقریباً 30% ہے۔ یہ ایک بہت بڑا حصہ ہے. جو مقامی صنعت سے چھینا جا رہا ہے۔
مقامی آٹو سیکٹر کیوں مشکلات کا شکار ہے؟
مقامی آٹو سیکٹر کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے. جس کی وجہ سے اس کی ترقی محدود ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے. کہ صنعت کی کل پیداواری صلاحیت (Installed Capacity) تقریباً 500,000 یونٹس سالانہ ہے. لیکن موجودہ استعمال صرف 36% ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 60% سے زیادہ صلاحیت بیکار پڑی ہے، جسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقامی کمپنیاں اپنی پوری صلاحیت پر کام نہیں کر پا رہیں۔
پرانی گاڑیوں کی آمد کے علاوہ، کچھ اور مسائل بھی ہیں:
-
ٹیکسوں کی شرح (Higher Taxation): گاڑیوں پر زیادہ ٹیکس ان کی قیمتوں میں اضافہ کرتا ہے. جس سے صارفین (Consumers) کے لیے انہیں خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔
-
پالیسی میں تسلسل کا فقدان (Lack of Policy Consistency): حکومتی پالیسیوں میں بار بار تبدیلیوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے. جو طویل المدتی سرمایہ کاری (Long-Term Investment) میں رکاوٹ بنتا ہے۔
-
آپریٹنگ اخراجات (High Operating Costs): بجلی، گیس اور خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتیں پیداواری اخراجات میں اضافہ کرتی ہیں۔
-
سپلائی چین میں کمزوریاں (Supply Chain Vulnerabilities): مقامی پرزہ جات کی پیداوار میں کمی اور درآمدات پر زیادہ انحصار بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
Indus Motors کی رپورٹ کے اہم Takeaways کیا ہیں؟
Indus Motors کی رپورٹ صرف ایک انتباہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے آٹو سیکٹر کے لیے ایک روڈ میپ بھی پیش کرتی ہے۔
پیداوار میں زبردست بحالی اور مستقبل کی امیدیں
مالی سال 2024-25 میں، Indus Motors نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس کی فروخت میں 56% کا اضافہ ہوا. یعنی 21,603 یونٹس سے بڑھ کر 33,757 یونٹس ہو گئے۔ کمپنی کو توقع ہے کہ یہ ترقی مالی سال 2025-26 میں بھی جاری رہے گی۔ اس امید کی وجوہات میں پالیسی ریٹ میں کمی، بہتر اقتصادی حالات اور ہائبرڈ (hybrid) اور الیکٹرک گاڑیوں (electric vehicles) کی بڑھتی ہوئی مانگ شامل ہیں۔
مستقبل کا روڈ میپ
Indus Motors کے مطابق، آٹو سیکٹر کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
-
پالیسیوں میں تسلسل (Policy Consistency): ایک مستحکم اور طویل المدتی پالیسی فریم ورک سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے گا۔
-
لوکلائزیشن کی حوصلہ افزائی (Localization Incentives): مقامی طور پر گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والی صنعت کو مراعات دینا چاہیے۔
-
ٹیکنالوجی میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری (Strategic Technology Investment): ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار میں سرمایہ کاری سے صنعت کو مستقبل کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔
کیا اس صورتحال کا کوئی حل ہے؟
ایکسپرٹ فنانشل مارکیٹس اسٹریٹجسٹ کے طور پر، میں نے اکثر یہ مشاہدہ کیا ہے. کہ جب بھی کوئی حکومت ایک مقامی صنعت کو مراعات یا تحفظ (Protection) دینے کی بجائے غیر ملکی مسابقت (Foreign Competition) کو آسانی سے داخل ہونے دیتی ہے. تو اس کے نتائج اکثر مقامی معیشت کے لیے مشکل ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، 2000 کی دہائی کے اوائل میں جب چین کی بنی ہوئی سستے الیکٹرانک مصنوعات پاکستانی مارکیٹ میں آئیں. تو اس نے مقامی الیکٹرانک اسمبلنگ انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا، جس سے کئی فیکٹریاں بند ہوئیں اور ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے۔
یہ اسی طرح کی صورتحال ہے، جہاں فوری فائدہ (یعنی صارفین کے لیے سستی گاڑیاں) طویل مدتی نقصان (یعنی صنعتی تباہی اور ملازمتوں کا خاتمہ) کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک صحت مند معیشت کے لیے ضروری ہے. کہ مقامی پیداواری صلاحیت کو پہلے مضبوط کیا جائے اور پھر بتدریج (Gradually) مارکیٹ کو کھولا جائے۔
حکومت کو ایک متوازن راستہ اپنانا چاہیے۔ پرانی گاڑیوں پر غیر ضروری ڈیوٹی (Duties) اور ٹیکسوں میں کمی نہیں کرنی چاہیے. تاکہ مقامی صنعت کی حفاظت ہو سکے۔ ساتھ ہی، مقامی مینوفیکچررز کو بھی اپنی گاڑیوں کی قیمتوں اور معیار کو بہتر بنانا چاہیے. تاکہ وہ صارفین کو اپنی طرف راغب کر سکیں۔ یہ ایک دو طرفہ (Two-Way) عمل ہے جہاں حکومت اور صنعت دونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
پاکستان کے آٹو سیکٹر کا مستقبل: ایک جامع تجزیہ
Indus Motors کی رپورٹ کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت صنعت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک طرف، اقتصادی بحالی، سود کی شرحوں میں ممکنہ کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں کا بڑھتا رجحان مثبت اشارے ہیں۔ دوسری طرف، پرانی گاڑیوں کی درآمدات اور پالیسی میں تسلسل کا فقدان بڑے چیلنجز ہیں۔
اگر حکومت اور آٹو سیکٹر مل کر کام کریں اور ایک ایسی پالیسی وضع کریں جو مقامی پیداوار اور روزگار کو فروغ دے، تو پاکستان کی آٹو انڈسٹری کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، یہ سیکٹر اپنی پوری صلاحیت کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا، جس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی اس کی مقامی صنعت کی مضبوطی سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے آٹو سیکٹر کی حفاظت اور ترقی کو ترجیح نہیں دیں گے. تو ہم صرف غیر ملکی اشیاء کی ایک بڑی منڈی بن کر رہ جائیں گے، جس کے طویل مدتی نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا حکومت کو مقامی آٹو سیکٹر کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں، یا صارفین کو سستی پرانی گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت ملنی چاہیے؟ اپنی رائے نیچے تبصروں میں ضرور دیں۔ مزید تجزیوں کیلئے ہماری ویب سائٹ https://urdumarkets.com/ وزٹ کریں.
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔



