Crude Oil کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ اور پاکستان کی معیشت پر اثرات۔

آج کروڈ آئل (Crude Oil) کی قدر میں زبردست گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ جس کے بعد WTI Crude اکتوبر 2021ء کی سطح کے قریب 72 ڈالرز فی بیرل پر ٹریڈ ہوتا ریکارڈ کیا گیا ہے جو کہ 23 نومبر 2022ء کو امریکی Crude Oil inventory کی ہفتہ وار رپورٹ کے بعد سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ حیرت انگیز طور پر کروڈ آئل کی قیمتیں اس رپورٹ کے مایوس کن ڈیٹا کے اجراء کے بعد زیادہ ہونی چاہیئے تھیں تاہم عالمی سیاست میں آنیوالی تبدیلیوں, روس کی طرف سے پیداوار میں کمی کے امکانات اور امریکہ اور مغربی اتحاد کی طرف سے روسی تیل کی قیمتوں کو محدود کرنے کے منصوبے (Price Cap Plan) کی منظوری اور نفاذ کے بعد کروڈ ائل مارکیٹ کے مروجہ اصولوں کو توڑتا ہوا نیچے آ رہا ہے۔

عمومی طور پر کروڈ آئل امریکی ڈالر (USD) کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ یعنی امریکی ڈالر کے بڑھنے پر کروڈ آئل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اس کا Price Mechanism سونے (Gold) کا معکوس ہے یعنی گولڈ کی طلب (Demand) میں اضافے کے نتیجے میں کروڈ آئل کی قیمت ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ لیکن گذشٹہ دو ہفتوں کے دوران کماڈٹی مارکیٹ کا یہ اصول بھی ٹوٹتا ہوا نظر آیا۔ گولڈ اور کروڈ آئل دونوں ہی ڈالر کے بڑھنے کے ساتھ نیچے آتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران امریکی ڈالر ان کے برعکس طرز عمل کا مظاہرہ کرتا رہا۔ عام حالات میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم کساد بازاری (Recession) کے ادوار میں مارکیٹ ہمیشہ اپنے میکانزم سے ہٹ کر اتار چڑھاؤ کی شکار ہو سکتی ہے۔

آج Brent اور WTI دونوں ہی گراوٹ کے شکار ہوئے۔ اول الذکر 4 ڈالرز کی کمی کے ساتھ 81 ڈالر اور دوسرا بھی اتنی ہی کمی کے ساتھ 72 ڈالر پر ٹریڈ کرتا ہوا نظر آیا۔ لیکن آج کی گراوٹ کی وجہ خلاف توقع تھی۔ چین میں غربت، بیروزگاری اور بالخصوص کورونا کی لہر کی وجہ سے عائد سخت ترین پابندیوں کے باعث کئی روز سے جاری مظاہرے سنگین شکل اختیار کر گئے جس کے بعد آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک دنیا بھر کی مارکیٹس غیر معمولی گراوٹ کی شکار ہوئی ہیں۔ اور سرمایہ کاروں کی اکثریت گولڈ، کروڈ اور اسٹاکس کی پوزیشنز فروخت کر رہے ہیں۔ اس طرح WTI اپنی رواں سال کی کم ترین سطح پر آ گیا ہے۔ 70 ڈالرز فی بیرل وہ سطح ہے جس کی پیشگوئی عالمی ادارہ برائے توانائی ایک عرصے سے سال 2023ء کے لئے کر رہا تھا۔ لیکن اکثر لوگوں کے اذہان میں آتا ہے کہ موجودہ مومینٹم کے مطابق کیا کروڈ آئل اس سے بھی نیچے آ سکتا ہے ؟۔ اسکا مختصر لیکن جامع الفاظ میں جواب یہ ہے کہ کروڈ آئل کے موجودہ ٹیکنیکی انڈیکٹرز کا بغور مشاہدہ کریں تو ایسا بالکل ممکن ہے۔

دنیا میں کروڈ آئل پیدا کرنیوالے تین بڑے ممالک سعودی عرب روس اور امریکہ میں سے روسی رسد بند ہونیکی صورت میں یعنی عالمی پیداوار کی ایک تہائی رسد کی عالمی پیداوار پر 5 دسمبر کے بعد عائد ہونیوالی پابندیوں کی نئی سیریز جسے Price Cap Plan کا نام دیا جا رہا ہے کے بعد کے حالات میں کروڈ آئل کی قیمتیں 120 ڈالرز تک بھی جا سکتی ہیں اور 60 ڈالر فی بیرل سے نیچے بھی۔ اسکا انحصار مجوزہ پابندیوں پر روسی ردعمل اور چینی رسد کی سپلائی بحال ہونے پر ہی ہو گا۔ ان کے علاوہ مغربی ممالک عراق اور سعودی عرب سے پیداوار بڑھانے کیلئے بات چیت کر رہے ہیں۔

اوپیک میں عراقی وفد کے سربراہ محمد سادون نے 5 لاکھ بیرل تیل یومیہ بڑھانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ آئندہ چند روز میں ایسا ہی اعلان سعودی عرب کی طرف سے بھی متوقع ہے۔ جس کے بعد Brent اور WTI دونوں کی قیمتیں 70 ڈالر کے قریب مستحکم ہونیکی توقع ہے اور روسی رسد بند ہونے کے باوجود بھی تیل کی عالمی رسد موجودہ سطح پر برقرار رہنے کی توقع ہے تاہم امریکی سیکرٹری خزانہ کروڈ آئل کو 65 ڈالر فی بیرل پر مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کر چکی ہیں اور قیمتوں کو اس سطح پر لانے کے لئے سعودی عرب اور عراق کی اضافی پیداوار کے باوجود 5 سے چھ لاکھ بیرل تیل یومیہ کی عالمی مارکیٹ میں سپلائی کی ضرورت پڑے گی جسے امریکہ ممکنہ طور پر وینیزویلا پر عائد پابندیوں میں نرمی پیدا کر کے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس طرح کروڈ آئل عالمی سیاست کے نئے منظرنامے میں انتہائی اہمیت حاصل کر گیا ہے، نئے اتحاد اور بلاکس کی ساری سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔

بلاشبہ کروڈ آئل گذشتہ ایک سو سال سے عالمی معیشت میں اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔ اور دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جو کہ اس بلیک گولڈ کے اتار چڑھاؤ سے متاثر نہ ہو۔ اس کی ذیلی مصنوعات جیسا کہ پیٹرول، ڈیزل، قدرتی گیس اور فرنس آئل دنیا بھر کی طرح پاکستان کی معیشت کے لئے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان کروڈ آئل اور پیٹرولیم مصنوعات کیلئے مکمل طور پر سعودی عرب، کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات پر انحصار کرتا ہے اور 100 ڈالرز فی بیرل کی اوسط سے سالانہ 20 سے 24 ارب ڈالر سے زائد ان کی درآمدات پر خرچ کرتا ہے۔ جس کے لئے ملکی زر مبادلہ کا کثیر حصہ خرچ ہوتا ہے۔ اسوقت پاکستان سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر کروڈ آئل حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ روس سے بھی کم رعائتی نرخوں پر کروڈ آئل حاصل کرنے کیلئے بات چیت کر رہا ہے ۔ تاہم 60 ڈالرز فی بیرل پر عالمی مارکیٹ سے کروڈ آئل کے معاہدوں کی صورت میں ملک کو 6 سے 8 ارب ڈالرز کے قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہو گی۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کی معاشی صورتحال مسلسل سنگین ہوتی جا رہی ہے، یہ بلاشبہ ایک بڑی بچت ہو گی اور بیرونی ادائیگیوں کے بوجھ میں 60 کروڑ ڈالر ماہانہ کی کمی واقع ہو گی۔ جبکہ اگر روس انڈیا کی طرح پاکستان کو بھی رعائتی نرخوں پر کروڈ آئل فراہم کرنے پر آمادہ ہو گیا تو پاکستان کو ممکنہ طور پر مزید 3 سے 4 بلیئن ڈالر سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے۔

دسمبر 2022ء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سال کا سرد ترین مہینہ ہوتا ہے لیکن سیاسی و معاشی درجہ حرارت اپنے اسی مہینے میں نقطہ ابال پر پہنچ جاتا ہے۔ سابقہ برسوں کے مقابلے میں رواں برس میں دسمبر مستقبل کے منظرنامے کی سمت کا عمل انگیز (Catalyst) ثابت ہونے کی توقع ہے۔ 5 دسمبر سے امریکہ اور مغربی اتحاد روسی تیل کی قیمتوں کو محدود کرنے کے منصوبے کا نفاذ عمل میں آ جائے گا۔ اگر ردعمل کے طور پر روس نے کروڈ آئل کی عالمی مارکیٹ میں سپلائی بند کر دی تو اسکے نتیجے میں سعودی عرب اور اوپیک ممالک کی طرف سے پیداوار کااضافہ نہ کیا گیا تو کروڈ آئل 120 ڈالر سے بھی اوپر جا سکتا ہے اور چین کی موجودہ صورتحال بھی معاملات کو اسی سمت میں لے جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ایشیائی ممالک کی طرف سے روس کی حمائت میں کھل کر سامنے آنے کی صورت میں اور چینی معیشت اور انڈسٹری کے کھلنے پر یہی کروڈ آئل 50 ڈالرز کے آس پاس بھی پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لیکن کماڈٹیز کا یہ Black Gold عالمی معیشت کے ساتھ کیا رویہ اپناتا ہے، اس کا دارومدار دسمبر 2022ء کے پہلے ہفتے کے واقعات پر ہو گا جس کا آغاز ہونے میں محض تین دن باقی ہیں۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button