Barter Trade کے طریقہ کار میں تبدیلی. ایران، افغانستان، اور روس کے ساتھ تجارت میں جدت.
How the Barter Mechanism with Iran, Afghanistan and Russia Offers a Strategic Financial Lifeline
پاکستان کی وزارت تجارت نے ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ Barter Trade کے طریقہ کار کو مزید موثر اور عملی بنانے کے لیے Statutory Regulatory Order – SRO میں اہم ترامیم کی ہیں۔
یہ اقدام نہ صرف علاقائی تجارت (Regional Trade) کو فروغ دینے کی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہے. بلکہ ملک کی فارن ایکسچینج (Foreign Exchange) پر انحصار کم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ تجربہ کار مالیاتی مارکیٹ کے ماہر کے طور پر، میں ان تبدیلیوں کا گہرائی سے تجزیہ کروں گا. کہ یہ آپ کے کاروبار اور وسیع معیشت کے لیے کیا معنی رکھتی ہیں۔
اہم نکات (Key Takeaways)
-
کنسورشیم (Consortium) کی اجازت: اب پاکستانی نجی ادارے (Private Entities) دو یا دو سے زیادہ مل کر ایک ‘کنسورشیم’ بنا سکتے ہیں تاکہ بارٹر ٹریڈ کے بڑے معاہدوں کو آسانی سے انجام دے سکیں۔
-
نان-سینکشنڈ (Non-Sanctioned) یقین دہانی: غیر ملکی مشنوں کی تصدیق کی جگہ اب پاکستانی تاجر، کنسورشیم، یا چیمبر آف کامرس کو ایک ‘انڈرٹیکنگ’ (Undertaking) دینی ہوگی. کہ غیر ملکی ادارہ یا فرد کسی بھی منظور شدہ ادارے (Sanctioned entity) کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
-
سہولت اور لچک (Flexibility): برآمدات (Exports) اور درآمدات (Imports) کے لیے مخصوص اشیاء کی پابند فہرست ختم کر دی گئی ہے. اور اب تجارتی اشیاء کو جنرل امپورٹ پالیسی آرڈر (IPO) اور ایکسپورٹ پالیسی آرڈر (EPO) کے مطابق کر دیا گیا ہے۔
-
نئے وقت کی حد: تاجر کو اب سامان کی قیمت کا تصفیہ (Netting-off) ہر سہ ماہی (Quarterly Basis) پر، یعنی 120 دن کے اندر کرنا ہوگا، جو پہلے سے زیادہ وقت فراہم کرتا ہے۔
-
مشترکہ ذمہ داری (Joint Responsibility): کنسورشیم کے تمام اراکین کسٹمز (Customs) اور ٹیکس کی خلاف ورزی کی صورت میں مشترکہ اور انفرادی طور پر ذمہ دار ہوں گے۔
120 دن میں تصفیہ (Netting-off) کا نیا Barter Trade اصول کیا ہے؟
نیا Barter Trade SRO تاجروں کے لیے ایک بہت بڑا عملی مسئلہ حل کرتا ہے. سامان کی قیمت کا تصفیہ (Netting-off) کرنے کی مدت کو 90 دن سے بڑھا کر 120 دن کر دیا گیا ہے۔
پہلے کے طریقہ کار میں، تاجروں کو سامان کی برآمد اور درآمد کے درمیان قدر کو ایک بہت ہی سخت وقت کی حد (90 دن) کے اندر برابر کرنا پڑتا تھا. جو اکثر نقل و حمل (Logistics)، کسٹمز کی منظوری، اور ادائیگی کے سائیکلوں کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔
نئی ترمیم کے تحت، پاکستانی ٹریڈرز کو ایک سہ ماہی (120 دن) کے اندر درآمد شدہ اور برآمد شدہ سامان کی قدر کا تصفیہ (Net-Off) یقینی بنانا ہوگا. اور ریگولیٹری کلیکٹوریٹ آف کسٹمز (Regulatory Collectorate of Customs) اس کی نگرانی کرے گا۔ اگر تاجر ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے. تو اجازت نامہ (Authorization) منسوخ ہو جائے گا. اور قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ٹریڈ کی دنیا میں وقت کی حدیں محض حکومتی قواعد نہیں ہوتیں. وہ دراصل مارکیٹ کے خطرات (Market Risks) کا براہ راست مقابلہ کرتی ہیں۔ سامان کی ترسیل میں ایک ہفتے کی تاخیر بھی فاریکس رسک (Forex Risk) یا کموڈٹی پرائس رسک (Commodity Price Risk) میں اہم اضافہ کر سکتی ہے۔
120 دن کی یہ توسیع بہت اہم ہے. کیونکہ یہ ریجنل ٹریڈ میں درپیش لاجسٹک چیلنجز (Logistical Challenges) جیسے کہ کسٹمز کلیئرنس (Customs Clearance) میں تاخیر اور زمینی راستوں (Land Routes) کے غیر یقینی حالات کو مدنظر رکھتی ہے۔ یہ لچک (Flexibility) کاروباروں کو زیادہ اعتماد کے ساتھ بڑے معاہدوں میں شامل ہونے کی اجازت دے گی۔
کنسورشیم کیا ہے اور کیوں متعارف کرایا گیا؟
نئے SRO نے ‘کنسورشیم’ کی قانونی تعریف شامل کی ہے، جس کا مطلب ہے پاکستان کے دو یا دو سے زیادہ نجی ادارے جو کسی ایک تجارتی پارٹنر کے ساتھ Barter Trade کے لیے معاہدہ کرتے ہیں۔
یہ سب سے اہم لچکدار (Flexible) تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے چھوٹے یا درمیانے درجے کے تاجر (SMEs) اتنے بڑے معاہدوں کو اکیلے سنبھال نہیں سکتے تھے. جو کہ ایران یا روس کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ ضروری ہوتے ہیں۔
کنسورشیم کی اجازت ملنے سے چھوٹے کھلاڑی بھی ایک بڑے گروپ کا حصہ بن کر بڑے سودے (deals) کر سکتے ہیں. جس سے خطرے (Risk) کی تقسیم ہوتی ہے. اور ان کی مالیاتی طاقت (Financial Muscle) بڑھ جاتی ہے۔
| پہلے | اب (ترمیم کے بعد) |
| صرف ایک پاکستانی ادارہ کسی غیر ملکی ادارے کے ساتھ براہ راست تجارت کر سکتا تھا۔ | دو یا دو سے زیادہ پاکستانی ادارے مل کر ایک کنسورشیم بنا سکتے ہیں۔ |
| معاہدوں کو زیادہ مالیاتی وسائل کی ضرورت تھی۔ | خطرات اور وسائل مشترکہ ہو جاتے ہیں، چھوٹے کھلاڑیوں کو موقع ملتا ہے۔ |
| مالیاتی اور کسٹمز کی خلاف ورزی کی ذمہ داری صرف ایک کمپنی پر تھی۔ | کنسورشیم کے تمام اراکین مشترکہ اور انفرادی طور پر ذمہ دار ہوں گے۔ |
Sanctioned Entities سے متعلق نئے قوانین
نئے قوانین کے مطابق ایک ‘Sanctioned Entity وہ فرد یا کمپنی ہے. جسے اقوام متحدہ (United Nations – UN) اور دیگر اداروں کی طرف سے تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ نئے SRO میں اب واضح طور پر اس کی تعریف شامل کی گئی ہے۔
پہلے، پاکستانی مشن کو غیر ملکی کمپنی کے ‘نان-سینکشنڈ’ ہونے کی تصدیق کرنی پڑتی تھی. جو ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل تھا۔ نئی ترمیم نے اسے آسان بنا دیا ہے:
-
نئی شرط: پاکستانی نجی ادارہ، کنسورشیم، یا متعلقہ چیمبر آف کامرس و انڈسٹری تحریری طور پر یقین دہانی (Undertaking) فراہم کرے گا. کہ بارٹر ٹریڈ میں شامل غیر ملکی فریق (Foreign Party) ‘پابندیوں کی شکار کمپنی نہیں ہے۔
یہ تبدیلی تجارت کی سہولت (Trade Facilitation) کے لیے ایک بہت بڑا قدم ہے. کیونکہ یہ کاغذی کارروائی اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرتی ہے۔ تاہم، اس سے پاکستانی تاجروں پر ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے. کہ وہ اپنے تجارتی پارٹنرز کی مناسب ڈو ڈیلجنس (Due Diligence) کو یقینی بنائیں۔ بین الاقوامی مالیاتی قوانین کی مکمل تفہیم اس نئے میکانزم کی کامیابی کی کلید ہے۔
برآمدات اور درآمدات کی پالیسی میں لچک
پہلے، Barter Trade صرف ایک محدود اور مخصوص فہرست میں شامل اشیاء کے لیے ہی کی جا سکتی تھی۔ نئے SRO کے تحت، اس پابندیوں والی فہرست کو ختم کر دیا گیا ہے. اور اب تجارتی اشیاء امپورٹ پالیسی آرڈر (IPO) اور ایکسپورٹ پالیسی آرڈر (EPO) کے تحت عام طور پر اجازت یافتہ اشیاء کی طرح ہوں گی۔
یہ فیصلہ کیوں اہم ہے؟
یہ تبدیلی تاجروں کو مارکیٹ ڈیمانڈ (Market Demand) اور موقع (Opportunity) کے مطابق زیادہ لچکدار طریقے سے کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ محدود فہرستیں اکثر بدلتے ہوئے علاقائی تجارتی ماحول کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پاتی تھیں. لیکن اب تاجر تیزی سے نئے سیزنل یا ہنگامی Barter Trade سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
فنانشل مارکیٹس پر اثرات اور آگے کا لائحہ عمل
Barter Trade میں یہ ترمیم کتنی بڑی کامیابی ہے؟
یہ ترامیم بنیادی طور پر پاکستان کی ان کوششوں کا حصہ ہیں. جن کا مقصد ڈالر پر انحصار کم کرنا ہے۔ ایران، روس اور افغانستان کے ساتھ غیر ملکی کرنسی (Foreign Currency) کے بغیر Barter Trade کو آسان بنا کر، پاکستان اپنے فارن ایکسچینج ریزرو (Foreign Exchange Reserves) پر دباؤ کم کرنے کی امید رکھتا ہے۔
-
ریزرو پر اثر: بارٹر ٹریڈ ڈالر کی ضرورت کو براہ راست کم کرتی ہے۔ اگر یہ میکانزم کامیاب ہوتا ہے. تو یہ ہمارے ریزرو کو استحکام (Stabilize) فراہم کرنے میں مدد دے سکتا ہے. جو بالآخر روپے کی قدر (Rupee Value) پر بالواسطہ (Indirect) مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔
-
بینکنگ اور فنانسنگ: چونکہ یہ تجارت کرنسی کے بغیر ہوتی ہے. اس لیے روایتی ٹریڈ فنانسنگ (Trade Financing) کے طریقہ کار (جیسے لیٹر آف کریڈٹ – Letter of Credit) کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔ البتہ، کنسورشیم کو دیے گئے اندرونی قرضوں اور خطرات کی ضمانت کے لیے نئے فنانشل پروڈکٹس (Financial Products) ابھر سکتے ہیں۔
-
خطرے کا انتظام (Risk Management): 120 دن کی تصفیہ (Netting-off) کی شرط فاریکس رسک کو تو کم کرتی ہے، لیکن کموڈٹی پرائس رسک بدستور موجود رہتا ہے۔ تاجروں کو اس مدت کے دوران قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے خلاف ہیجنگ (Hedging) کے لیے جدید آلات استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
حرف آخر.
یہ SRO ترامیم حکومتی ریگولیٹرز اور نجی شعبے کے درمیان وسیع مشاورت کا نتیجہ ہیں. جو کسی بھی میکانزم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ مارکیٹس میں دس سال کا تجربہ مجھے یہ سکھاتا ہے کہ بہترین پالیسی بھی تبھی کامیاب ہوتی ہے. جب اس پر عمل درآمد (Implementation) موثر ہو۔ کنسورشیم کا قیام اور 120 دن کی توسیع عملی رکاوٹوں کو دور کرتی ہے. لیکن پابندیوں کے شکار اداروں (Sanctioned Entities) کی خود سے یقین دہانی کی شرط تاجروں پر ایک بڑا تعمیل (Compliance) کا بوجھ ڈالتی ہے۔
تاجروں کو مشورہ ہے کہ وہ ان آسانیوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں. لیکن ساتھ ہی اپنی ڈو ڈیلجنس (Due Diligence) کو سخت رکھیں۔ اس Barter Trade میکانزم کی کامیابی پاکستان کو علاقائی اقتصادی انضمام (Economic Integration) میں ایک نیا مقام دلوا سکتی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ نئی آسانیاں آپ کے کاروبار کو ایران، روس، یا افغانستان کے ساتھ تجارت شروع کرنے یا بڑھانے کی ترغیب دیں گی؟ ہمیں کمنٹس میں بتائیں!
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔



