پاکستان میں Labour Force Survey 2024-25 ، روزگار، اجرت اور Unemployment Rate کی اصل مالی کہانی
Unpacking the economic layers behind Pakistan's labour movement, wage growth, and hidden contradictions
پاکستان کے معاشی منظرنامے میں Labour Market کی نئی تصویر اس وقت سامنے آئی. جب Labour Force Survey کے ذریعے بتایا گیا کہ ملک میں روزگار کی صورتحال خاموشی سے بدل رہی ہے۔ یہ تبدیلی صرف اعداد نہیں. بلکہ ایک مکمل Financial Story ہے. جو محنت کش طبقے کی کمائی، مہنگائی، صنعتی سرگرمیوں اور ریاست کے معاشی نیٹ ورک سے جڑی ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں Unemployment Rate بڑھ کر 7.1% تک پہنچ چکا ہے. اور بے روزگار افراد کی تعداد 8 ملین تک بتائی جا رہی ہے. مگر اصل تضاد وہ ہے جو ان اعداد کے پیچھے چھپا ہے۔ PBS نے ابھی تک مکمل رپورٹ جاری نہیں کی، اس لیے کہانی یہاں سے دلچسپ ہونا شروع ہوتی ہے۔
پاکستان لیبر فورس سروے 2024-25 کے اہم نکات
-
بے روزگاری کی شرح: ابتدائی رپورٹس کے مطابق بے روزگاری کی شرح 2020-21 کے 6.3% سے بڑھ کر 7.1% تک پہنچ گئی ہے. جو معاشی سست روی (Economic Slowdown) کی طرف اشارہ ہے۔
-
اعداد و شمار کا تضاد: میڈیا میں بے روزگار افراد کی تعداد 8 ملین بتائی گئی ہے. جو 7.1% بے روزگاری کی شرح اور 77.2 ملین لیبر فورس کے ریاضیاتی حساب (5.5 ملین) سے میل نہیں کھاتی۔ مکمل رپورٹ کا انتظار ضروری ہے۔
-
سب سے بڑا روزگار فراہم کنندہ: خدمات کا شعبہ (Services Sector) 41.7% حصہ کے ساتھ پاکستان میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا شعبہ بن کر ابھرا ہے۔
-
اوسط ماہانہ اجرت: اوسط ماہانہ اجرت ₹39,042 ریکارڈ کی گئی ہے. جو بظاہر 2020-21 کے مقابلے میں ایک بڑا اضافہ ہے. لیکن افراط زر (Inflation) کے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں روزگار کی نئی تصویر: لیبر فورس سروے 2024-25 کا گہرائی سے تجزیہ
پاکستان بیورو آف شماریات (PBS) کی جانب سے جاری کردہ Labour Force Survey (LFS) 2024-25 کے ابتدائی نتائج نے ملکی اقتصادی صورتحال پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک مالیاتی مارکیٹ کے مواد کی حکمت عملی کے ماہر کے طور پر، ان اعداد و شمار کا نہ صرف سطح پر بلکہ گہرائی میں تجزیہ کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے حقیقی معاشی اور مارکیٹ پر اثرات کو سمجھا جا سکے۔ یہ رپورٹ ملک میں ملازمتوں، اجرتوں، اور ورکنگ ایج کی آبادی کی ساخت کے بارے میں اہم بصیرت (Insights) فراہم کرتی ہے۔
اس مضمون میں، ہم Pakistan Labour Force Survey 2024-25 کے ابتدائی حقائق، میڈیا رپورٹس میں موجود ابہامات، اور ان کی اصل معاشی صورتحال پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ ڈیٹا سرمایہ کاروں (Investors) اور پالیسی سازوں (Policymakers) دونوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
بے روزگاری کی شرح: کیا 7.1% کا ہندسہ خطرے کی گھنٹی ہے؟
Labour Force Survey 2024-25 کے ابتدائی نتائج کے مطابق، پاکستان میں بے روزگاری کی شرح (Unemployment Rate) 2020-21 کی 6.3% سے بڑھ کر 7.1% ہو گئی ہے. جو 0.8 فیصد پوائنٹ کا اضافہ ہے۔
یہ رجحان معاشی نمو (Economic Growth) کی کمی، خاص طور پر صنعتوں میں، اور نئی ملازمتوں کے ناکافی مواقع پیدا ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد کے بارے میں مختلف اعداد و شمار کی وجہ سے ایک اہم ابہام پایا جاتا ہے. جس کی درستگی سرکاری تصدیق سے مشروط ہے۔
Labour Force Survey کے بارے میں میڈیا رپورٹس میں بے روزگار افراد کی تعداد 80 لاکھ (8 ملین) تک بتائی گئی ہے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ مارکیٹ کے ماہرین کو اعداد و شمار کو دیکھنے کا اپنا طریقہ اپنانا چاہیے۔
Labour Force Survey کے اعداد و شمار میں تضاد اور اس کے ممکنہ معانی
Pakistan Labour Force Survey 2024-25 کے اعداد و شمار میں کیا ریاضیاتی تضاد سامنے آیا ہے؟
LFS 2024-25 کے ابتدائی ڈیٹا میں ایک واضح تضاد موجود ہے جسے مارکیٹ کے تجزیہ کاروں (analysts) کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
| فیکٹر (Factor) | رپورٹ شدہ عدد | ریاضیاتی مسئلہ |
| کل لیبر فورس | 77.2 ملین | |
| بے روزگاری کی شرح | 7.1% | |
| بے روزگار افراد (حساب کے مطابق) | 5.5 ملین (77.2 ملین کا 7.1%) | یہ 8 ملین سے بہت کم ہے |
| بے روزگار افراد (میڈیا رپورٹس) | 8.0 ملین | یہ 7.1% شرح سے مطابقت نہیں رکھتا |
ممکنہ وضاحتیں (Potential Explanations):
-
تعریفات کی تبدیلی (Change in Definitions): ہو سکتا ہے کہ PBS نے بین الاقوامی معیار (ICLS standards) کے مطابق بے روزگاری کی تعریف میں تبدیلی کی ہو. جس سے فارمولوں میں سیدھی مطابقت نہ رہی ہو۔
-
رپورٹنگ کا فرق (Reporting Discrepancy): ایک امکان یہ بھی ہے کہ 8 ملین کی فگر لیبر فورس کی بجائے کل آبادی کے تناسب سے دی گئی ہو. جیسا کہ 3.3% کی فگر سے ظاہر ہوتا ہے۔
-
ابتدائی نتائج (Preliminary Data): سب سے زیادہ امکان یہ ہے. کہ یہ ابتدائی اعداد و شمار ہیں. اور مکمل رپورٹ شائع ہونے پر یہ تضادات ختم ہو جائیں گے۔
اس طرح کے تضادات ابتدائی طور پر مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال (Uncertainty) پیدا کرتے ہیں۔ ذمہ دار سرمایہ کار (Responsible Investors) ہمیشہ مکمل اور تصدیق شدہ سرکاری رپورٹ کے جاری ہونے کا انتظار کرتے ہیں. تاکہ اپنے فیصلوں کو ٹھوس بنیاد فراہم کر سکیں۔
پاکستان کی ورک فورس کی سیکٹر وار تقسیم
یہ تقسیم مارکیٹ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے. کہ معیشت کا کون سا حصہ روزگار کی پیداوار (job creation) میں کتنا حصہ ڈال رہا ہے. اور اس کا مجموعی پیداوار (GDP) پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
| شعبہ (Sector) | ملازمتیں (ملین میں) | مجموعی حصہ |
| خدمات (Services) | 31.83 | 41.7% |
| زرعی شعبہ (Agriculture) | 25.53 | 33.1% |
| صنعتی شعبہ (Industry) | 19.86 | 25.7% |
-
خدمات کا شعبہ: 41.7% کے ساتھ، یہ شعبہ پاکستان کی معاشی مشینری کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس میں ٹیکنالوجی، فنانس، ٹرانسپورٹ، اور دیگر کاروبار شامل ہیں۔ اس شعبے کی مضبوطی معیشت کی جدیدیت (Modernization) کی طرف اشارہ ہے۔
-
صنعتی شعبہ (Industry): 25.7% کا حصہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے. کہ مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن میں نمو (Growth) کو بڑھانے کی بہت گنجائش ہے. کیونکہ یہ شعبہ زیادہ قدر (Higher Value) کی ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔
اوسط ماہانہ اجرت: مہنگائی کے تناظر میں حقیقی قوتِ خرید
Pakistan Labour Force Survey کی ابتدائی رپورٹس کے مطابق اوسط ماہانہ اجرت ₹39,042 تک پہنچ گئی ہے. جو 2020-21 کے ₹24,028 کے مقابلے میں ₹15,014 کا اضافہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اچھے لگ سکتے ہیں. لیکن ایک Seasoned Financial Strategist کے لیے یہ جاننا ضروری ہے. کہ نامینل اجرت (Nominal wage) میں اضافہ حقیقی اجرت (Real Wage) میں اضافہ نہیں ہوتا۔
فنانشل مارکیٹس میں، ہم اسے "انکم فلوژن” (Income Illusion) کہتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک کلائنٹ کو مشورہ دیا کہ وہ کمپنی کے منافع (Profit Margins) کو صرف روپیہ کے لحاظ سے نہ دیکھے. بلکہ اسے خام مال کی قیمتوں (Commodity Prices) اور افراط زر کے خلاف ایڈجسٹ کرے۔
اگرچہ اس کمپنی کی سیلز میں اضافہ ہوا تھا، لیکن ان کا مارجن افراط زر کے مقابلے میں کم تھا. جس کا مطلب ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں غریب ہو رہے تھے۔ اسی طرح، اجرت میں اضافہ صرف اس وقت معنی خیز ہے. جب وہ مہنگائی کی شرح کو پیچھے چھوڑے۔
حقیقی قوتِ خرید (Real Purchasing Power):
-
اگرچہ اجرت میں ₹15,014 کا اضافہ ہوا، لیکن اسی دورانیے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح (Inflation rate) کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
-
اگر پچھلے پانچ سالوں میں مجموعی مہنگائی 100% سے زیادہ رہی ہے. تو اجرت میں اضافہ (تقریباً 62%) دراصل کارکنوں کی حقیقی قوتِ خرید میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
-
نتیجتاً، کارکنوں کی معاشی حالت بظاہر بہتر نظر آنے کے باوجود درحقیقت کمزور ہوئی ہے۔
کلیدی حقائق کا خلاصہ: آبادی، لیبر فورس اور ورکنگ ایج
Pakistan Labour Force Survey 2024-25 کے مطابق آبادی اور لیبر فورس کی کچھ بنیادی تفصیلات درج ذیل ہیں:
-
کل آبادی (2023 مردم شماری): 241.49 ملین
-
لیبر فورس: 77.2 ملین (وہ لوگ جو کام کر رہے ہیں. یا کام کی تلاش میں ہیں)
-
ورکنگ ایج آبادی: 43%
-
غیر فعال آبادی (Not in Labour Force): 53.8% (جیسے طلباء، ریٹائرڈ افراد، گھر کے کام کرنے والے، وغیرہ)
-
کل آبادی کا بے روزگار حصہ: 3.3%
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں. کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی (53.8%) ابھی بھی معاشی طور پر غیر فعال ہے. جس سے ظاہر ہوتا ہے. کہ لیبر فورس کی شمولیت (Participation) بڑھانے اور اس بڑی آبادی کو پیداواری طاقت (Productive Force) میں تبدیل کرنے کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔
گہری مارکیٹ بصیرت اور آگے کا راستہ
Labour Force Survey 2024-25 کے ابتدائی نتائج پاکستان کی لیبر مارکیٹ کی ایک پیچیدہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ 7.1% کی بے روزگاری کی شرح اور اوسط اجرت میں اضافہ، دونوں ہی بظاہر تشویشناک ہیں. جب تک کہ انہیں مہنگائی اور آبادی کے تناسب سے نہ دیکھا جائے۔
مارکیٹ کو صرف "ہیڈ لائن” نمبرز پر توجہ دینے کے بجائے، اس کے اندرونی تضادات (جیسے کہ 5.5 ملین بمقابلہ 8 ملین بے روزگار) اور حقیقی قوتِ خرید پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
ایک تجربہ کار مالیاتی ماہر کے طور پر، میرا مشورہ یہ ہے. کہ معیشت کو پائیدار نمو (Sustainable Growth) کی راہ پر لانے کے لیے خدمات اور زرعی شعبوں پر انحصار کم کرکے صنعتی شعبہ (Industry) میں سرمایہ کاری اور ترقی کو فروغ دیا جائے. جو زیادہ قدر اور پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ PBS کی مکمل اور حتمی رپورٹ ہی سرمایہ کاروں کے لیے مستقبل کی حکمت عملی بنانے کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرے گی۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے، کن شعبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے. جو روزگار کی شرح کو بہتر بنا سکیں؟
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔



