پاکستان کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ: Q1 FY26 میں برآمدات میں کمی، درآمدات میں اضافہ

A sharp rise in imports and a fall in exports trigger a dangerous increase

کیا آپ جانتے ہیں کہ  Pakistan Trade Deficit  ستمبر FY26 میں حیرت انگیز طور پر 45.83 فیصد تک بڑھ گیا؟ نئے معاشی سال کے پہلے کوارٹر کے اعداد و شمار نہ صرف ایک بڑھتی ہوئی پریشانی کی نشاندہی کر رہے ہیں. بلکہ ان معاشی چیلنجز کو بھی سامنے لا رہے ہیں. جن کا سامنا ملک کو کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک دہائی کے تجربے سے، ہم جانتے ہیں کہ تجارتی توازن (Trade Balance) کا بگڑنا ملک کی اسٹاک مارکیٹ (Stock Market) اور زرمبادلہ کے ذخائر (Foreign Exchange Reserves) پر براہ راست اور منفی اثر ڈالتا ہے۔ اس تفصیلی تجزیہ میں، ہم آپ کو ان اعداد و شمار کے پیچھے کی مکمل کہانی اور اس کے مضمرات بتائیں گے۔

اہم نکات کا خلاصہ

  • مالی سال 26 کے پہلے کوارٹر (جولائی-ستمبر) میں پاکستان کی برآمدات (Exports) 3.83 فیصد کم ہو کر 7.60 بلین ڈالر پر آ گئیں. جو گزشتہ سال 7.91 بلین ڈالر تھیں۔

  • اسی عرصے میں درآمدات (Imports) 13.49 فیصد بڑھ کر 16.97 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں. جو پچھلے سال 14.95 بلین ڈالر تھیں۔

  • ستمبر FY26 میں Trade Deficit پچھلے سال کے 2.3 بلین ڈالر کے مقابلے میں 45.83 فیصد کے ہوشربا اضافے کے ساتھ 3.34 بلین ڈالر ہو گیا۔

  • برآمدات میں بنیادی کمی کی وجہ ٹیکسٹائل سیکٹر (Textile Sector) کی خراب کارکردگی ہے. جس کا زیادہ توانائی کی لاگت اور بین الاقوامی سطح پر کم کپاس (Cotton) کی قیمتوں سے گہرا تعلق ہے۔

  • خدمات کی برآمدات (Services Exports) نے جولائی-اگست میں 11.73 فیصد کا اضافہ دکھایا. جو تجارتی محاذ پر واحد مثبت اشارہ ہے۔

Q1 FY26 کے تجارتی اعداد و شمار: کیا ہو رہا ہے؟

مالی سال 26 کے پہلے کوارٹر میں پاکستان کا تجارتی توازن (Trade Balance) دباؤ میں رہا۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، یہ رجحان نہ صرف مختصر مدت کا ہے بلکہ اس کے گہرے ساختی (Structural) مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ Q1 FY26 میں کل تجارتی حجم کیسا رہا؟

پہلے کوارٹر (جولائی تا ستمبر) میں، پاکستان کی برآمدات 3.83 فیصد کی کمی کے ساتھ 7.60 بلین ڈالر پر رہیں، جبکہ درآمدات میں 13.49 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 16.97 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس کے نتیجے میں Trade Deficit نمایاں طور پر بڑھا، جو مہینوں میں اور سال بہ سال کی بنیاد پر ملک کی بیرونی مالی پوزیشن (External Financial Position) پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں تیزی سے اضافہ ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

تفصیل Q1 FY26 (جولائی-ستمبر) Q1 FY25 (جولائی-ستمبر) تبدیلی (YoY)
برآمدات 7.60 بلین ڈالر 7.91 بلین ڈالر -3.83%
درآمدات 16.97 بلین ڈالر 14.95 بلین ڈالر +13.49%

ستمبر FY26 میں تجارتی خسارہ آسمان کو چھو گیا

ستمبر کا مہینہ خاص طور پر تشویشناک رہا۔ اس مہینے میں، Trade Deficit گزشتہ سال کے 2.3 بلین ڈالر کے مقابلے میں 45.83 فیصد کے ہوشربا اضافے کے ساتھ 3.34 بلین ڈالر تک جا پہنچا۔ یہ تیزی سے بڑھتا ہوا خسارہ معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ستمبر میں برآمدات 11.71 فیصد کم ہو کر 2.50 بلین ڈالر پر آ گئیں. جبکہ درآمدات بڑھ کر 5.84 بلین ڈالر ہو گئیں۔

برآمدات میں کمی کی اصل وجوہات: ٹیکسٹائل سیکٹر کا دباؤ

پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً 60 فیصد حصہ ٹیکسٹائل (Textile) مصنوعات پر مشتمل ہے۔ اعداد و شمار اور انڈسٹری (Industry) ماہرین کے مطابق، برآمدات میں بنیادی کمی کی وجہ یہی ٹیکسٹائل سیکٹر کی سست کارکردگی ہے۔ برآمدات کے رجحانات کا تجزیہ کرتے وقت، اس اہم سیکٹر کی کارکردگی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

سابق چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) کے مطابق، دو بڑے عوامل ٹیکسٹائل کی برآمدات کو نیچے لا رہے ہیں:

  1. بین الاقوامی سطح پر کم کپاس کی قیمتیں: پچھلے سال کے دوران، کپاس کی قیمتیں 1.50 ڈالر فی پاؤنڈ سے کم ہو کر تقریباً 64 سینٹ فی پاؤنڈ پر آ گئی ہیں، جس سے ٹیکسٹائل مینوفیکچررز (Manufacturers) کے منافع کا مارجن (Profit Margin) شدید طور پر کم ہوا ہے۔

  2. زیادہ توانائی کی لاگت: ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی 12-13 سینٹ فی یونٹ کے ریٹ پر مل رہی ہے۔ انڈسٹری کی رائے ہے کہ اگر یہ شرح کم ہو کر 7 سینٹ کر دی جائے، تو ٹیکسٹائل کی برآمدات اگلے دو سے تین سالوں میں 25 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ توانائی کی زیادہ قیمت پیداواری لاگت (Cost of Production) کو بڑھا دیتی ہے، جس سے پاکستانی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر مسابقتی (Non-Competitive) ہو جاتی ہیں۔

برآمدات میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟

ایک تجربہ کار مارکیٹ تجزیہ کار کے طور پر، میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ٹیکسٹائل جیسے مرکزی سیکٹر میں ایک معمولی سی تبدیلی بھی ملکی کرنسی (Currency) کی قدر پر بڑا اثر ڈال سکتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ اپریل 2023 کے دوران جب برآمدات دباؤ میں تھیں. حکومت کی جانب سے ایک انرجی سبسڈی (Subsidy) کی خبر پر مارکیٹ نے فوری طور پر رد عمل ظاہر کیا تھا. ٹیکسٹائل کمپنی کے شیئرز بڑھے اور روپیہ (Rupee) اپنی کم ترین سطح سے تھوڑا سنبھل گیا۔

یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ برآمدات کے لیے صرف عالمی طلب (Global Demand) ہی نہیں بلکہ مقامی پیداواری لاگت (Local Production Cost) بھی کتنی اہم ہے۔ جب بنیادی اصول (Fundamentals) کمزور ہوں تو مختصر مدت کی مارکیٹ کی ریلی (Rally) بھی زیادہ دیرپا نہیں ہوتی۔

ایک مثبت اشارہ: خدمات کی برآمدات میں اضافہ

جہاں تجارتی برآمدات (Goods Exports) دباؤ میں ہیں، وہیں خدمات کی برآمدات (Services Exports) نے کچھ بہتری دکھائی ہے۔ جولائی اور اگست FY26 کے اعداد و شمار کے مطابق:

  • خدمات کی برآمدات 11.73 فیصد بڑھ کر 1.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال 1.25 بلین ڈالر تھیں۔

  • تاہم، خدمات کی درآمدات بھی 15.37 فیصد بڑھ کر 2.1 بلین ڈالر ہو گئیں۔

  • نتیجتاً، خدمات کے تجارتی خسارے (Services Trade Deficit) میں بھی 16.94 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 707 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگرچہ خدمات کا سیکٹر ترقی کر رہا ہے. لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات اس ترقی کے اثر کو جزوی طور پر زائل کر رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) اور ٹیلی کمیونیکیشن (Telecommunication) جیسی خدمات میں مزید سرمایہ کاری (Investment) کر کے ملک کو اپنے موجودہ Trade Deficit کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

معاشی استحکام کے لیے کیا ضروری ہے؟

اس بڑھتے ہوئے Trade Deficit کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ملک کی معاشی صحت (Economic Health) کے لیے ایک واضح خطرہ ہے۔ یہ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈالتا ہے. اور روپے کی قدر (Rupee value) کو کمزور کرتا ہے۔

ایک تجربہ کار مارکیٹ ماہر کی حیثیت سے، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی بھی پائیدار حل (Sustainable Solution) کے لیے صرف عارضی اقدامات (Temporary Measures) کی بجائے بنیادی ساختی اصلاحات (Fundamental Structural Reforms) کی ضرورت ہے۔

  1. برآمدات پر توجہ: ٹیکسٹائل سیکٹر کو فوری امداد فراہم کرنا، خاص طور پر مسابقتی توانائی کی قیمتوں کی فراہمی، برآمدات کو تیزی سے بحال کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، دیگر ابھرتے ہوئے برآمدی سیکٹرز (Emerging Export Sectors) مثلاً آئی ٹی اور فوڈ پروسیسنگ (Food Processing) کو بھی ترجیح دینا ضروری ہے۔

  2. درآمدات کی منطقی ترتیب: پرتعیش اور غیر ضروری درآمدات پر کنٹرول برقرار رکھنا، یا مقامی متبادل (Local Alternatives) کی پیداوار کو فروغ دینا، درآمدی بل کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

  3. سرمایہ کاری میں اضافہ: مقامی اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (FDI – Foreign Direct Investment) کو راغب کرنا ضروری ہے تاکہ ڈالر (USD) کے بہاؤ کو بہتر بنایا جا سکے۔

حتمی نکتۂ نظر

مالی سال 26 کا پہلا کوارٹر ایک معاشی سبق لے کر آیا ہے۔ برآمدات میں معمولی کمی بھی جب درآمدات میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ملتی ہے. تو تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورتحال مارکیٹ کے کھلاڑیوں (Market Participants) کو محتاط رہنے کا اشارہ دیتی ہے۔

میرا مشورہ یہ ہے کہ معاشی اعداد و شمار کو صرف نمبروں کے طور پر نہ دیکھیں. بلکہ انہیں ایک طویل مدتی سرمایہ کاری کی حکمت عملی (Long-Term Investment Strategy) میں شامل کریں۔

جب تک حکومت برآمدی لاگت کو کم کرنے اور درآمدی طلب کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی. روپے پر دباؤ اور مہنگائی (inflation) کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ایک سمجھدار سرمایہ کار ہمیشہ ان معاشی اشاروں پر گہری نظر رکھتا ہے. تاکہ وہ اپنے مالی فیصلوں کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھال سکے۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ موجودہ تجارتی صورتحال پاکستانی مارکیٹس پر مزید کیا اثر ڈال سکتی ہے؟ نیچے کمنٹس (Comments) میں ہمیں بتائیں۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button