State Bank of Pakistan کا شرح سود میں اضافہ

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (State Bank of Pakistan) نے شرح سود (Interest rate) میں 100 بنیادی پوائنٹس (ایک فیصد) اضافہ کر دیا ہے۔ جس کے بعد ملک میں شرح سود 17 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

کراچی میں 2023ء کی پہلی Monetary Policy کا اعلان کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ بینک کی Monetary Policy Committee نے پالیسی ریٹ میں اضافہ ملک میں افراط زر (Inflation) اور مہنگائی کی صورتحال کے علاوہ بین الاقوامی معاشی صورتحال کے پیش نظر کیا ہے۔ انہوں کے کہا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران اگرچہ مجموعی طور پر مہنگائی میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے تاہم بنیادی اشیائے ضروریہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ زر مبادلہ (Foreign Exchange Reserves) کی صورتحال ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک (World Bank) اور IMF کی طرف سے عالمی معیشت کی شرح نمو (Growth rate) میں مسلسل کمی کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ (Global Market) غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے اور اسکے اثرات پاکستانی مارکیٹ پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مانیٹری پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ ملک کی مالیاتی پوزیشن کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی اندازے کے مطابق شرح نمو (Growth rate) میں اضافے کی پیشگوئی 2 فیصد کی گئی تھی، تاہم ملک کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر اور درآمدات کے لئے Letter Of Credit بند ہونے کے باعث اس میں تنزلی کا امکان ہے۔ جمیل احمد کا کہنا تھا کہ گذشتہ 6 ماہ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر 3.7 ارب ڈالرز کی ہیں جو کہ تنزلی کے باوجود اپنے ہدف کے مطابق ہیں۔ تاہم ڈالر کے بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس کے درمیانی فرق کو معمول پر لا کر Overseas پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر (Foreign Remittances) کو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے اور چند دوست ممالک کی طرف سے امداد میں تاخیر کے سبب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے (Current Account Deficit) میں اضافہ ہوا ہے۔ IMF پروگرام کی بحالی اور دوست ممالک کی طرف سے امداد جاری ہونے کے بعد صورتحال میں نمایاں بہتری آئیگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی نے نومبر 2022ء میں اپنی آخری میٹنگ کے بعد سے اب تک تین بنیادی اقتصادی بنیادوں کا جائزہ لیا ہے جن میں گذشتہ 10 ماہ کے دوران قیمتوں میں اضافے کا رجحان، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مانیٹری پالیسی کی وجہ سے کمی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے بعد بیرونی شعبے پر دباؤ میں مسلسل اضافہ شامل ہیں۔

انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ پاکستانی روپے کے بدلے میں امریکی ڈالر (USD/PKR) کی شرح تبادلہ (Exchange Rate) مارکیٹ کے پیرامیٹرز کے اندر ہی رہے گا اور اسے مصنوعی طریقوں سے روکا نہیں جائے گا۔ ان کے مطابق پاکستان کی بیرونی فائنانسنگ کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ملکی برآمدات (Exports) میں کمی اور پاکستان کی بیرونی تجارت میں مقامی کرنسی کے کردار کا نہ ہونا ہے تاہم روس کے ساتھ خام تیل (Crude Oil) کی درآمدات (Imports) دونوں ممالک کی اپنی کرنسیز یا دوست ممالک کے ذریعے ادائیگیاں کیے جانے سے پاکستان کو سالانہ 30 ارب ڈالرز کی بچت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکر کے بحران کے ذمہ دار بینکوں کے خلاف مالی اور انتظامی کاروائیاں کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں 13 بینکوں کی نشاندہی کر کے جلد کارواییوں کا آغاز کر دیا جائے گا انکے مطابق اس معاملے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے اور مشاورت کا عمل جاری ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button