برکس ممالک کا معاشی اتحاد، کیا دنیا نئے ورلڈ آرڈر کی طرف جا رہی ہے ؟۔

برکس ممالک کا معاشی اتحاد ایک بار پھر اسوقت دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بن گیا جب 31 مارچ کو اس نے ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔ جس کے حوالے سے جون 2022ء سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس نئے ورلڈ آرڈر میں دنیا بھر میں امریکی بالادستی کی علامت ڈالر کی جگہ مقامی کرنسیوں کو مشترکہ سپورٹ فراہم کی جائے گی۔ لیکن معیار زر چینی کرنسی یوان ہو گی۔

حالیہ دنوں میں چینی صدر ژی جن پنگ کی اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے ہونیوالی ملاقات میں باہمی تجارت اور دوستی کے نئے معاہدوں کے علاوہ اہم ترین پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب برکس ممالک، وسطی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ ملل کر دنیا پر اقوام مغرب کی اجارہ داری کو چیلنج کیا گیا

امریکہ کی زیر سرپرستی G7 کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ پر مشتمل اس فورم جسے رکن ممالک کے ابتدائی حروف کو ملا کر برکس کا نام دیا گیا ہے کو معاشی اتحاد میں تبدیل کر دیا گیا۔۔ اس میں اہم ترین نقطہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسیوں کے تحت ٹریڈ کا معاہدہ ہے۔

باہمی ٹریڈ کا نیا ماڈل کیا ہے اور یہ امریکی ڈالر کو کیسے متاثر کر سکتا ہے ؟

چینی یوان بین الاقوامی تجارت میں ڈالر اور یورو کی طرح متبادل اور قابل قبول کرنسی بننے جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے چین اور روس برکس ممالک کے ساتھ مل کر باہمی کرنسیز میں ٹریڈ اور چینی یوان کو تجارت کی مرکزی اکائی کے طور پر ڈیل کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں جس کے بعد امریکی ڈالر کی اجارہ داری خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ ممالک چینی کرنسی یوان کے کھربوں ڈالرز زخائر جمع کر رہے ہیں تا کہ ڈالر کی حکمرانی کو چیلنج کیا جا سکے اور بین الاقوامی ترسیل زر کے نظام کو سیاست میں ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے

اس سلسلے میں ابتدائی سطح پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ برکس (برازیل، روس، انڈیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ) کا فورم معاشی بلاک میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ جبکہ ان کے علاوہ سنگاپور، انڈوںیشیا اور ہانگ کانگ سمیت مجوزہ بلاک کے رکن ممالک کی تعداد 25 تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس طرح یورو کی طرح طویل عرصے کے بعد نئی مشترکہ کرنسی کی شکیل عمل میں لائی جا رہی ہے۔ جس کا مرکزی یونٹ تو یوان ہو گا۔ تاہم ہر رکن ملک باہمی تجارت میں اپنی مقامی کرنسی استعمال کرنے میں آزاد ہو گا۔ ​۔

اس مقصد کے لئے چین ترسیل زر کے نظام سوئفٹ (Swift) کے مقابلے میں اپنا متبادل بین الاقوامی نظام تشکیل دے رہا ہے۔ جسے ممکنہ طور پر چائینیز یونین کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔ چینی مرکزی بینک پیپلز بینک آف چائنا اور برکس فورم کی آفیشل ویب سائٹ کی پر جاری کئے گئے بیان کے مطابق مندرجہ بالا ممالک اور ہانگ کانگ، سنگاپور، روس، انڈونیشیا، چلی اور ارجنٹائن میں سے ہر ملک اور زون کا سنٹرل بینک 15 بلیئن چینی یوان کے زخائر اپنے پاس رکھے گا تا کہ بین الاقوامی تجارت کی لیکوئیڈٹی کا تصفیہ ہو سکے۔

ان کے علاوہ 2.2 بلئین یوان کے اضافی زخائر کرنٹ اکاونٹ اخراجات کے لئے رکھے جائیں گے۔ اسی طرح ضرورت پڑنے پر ایک مشترکہ فنڈ کے زریعے یوان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا تا کہ تمام ممالک برابری کی بنیاد پر تجارت اور ترسیل زر کے متبادل نظام تک رسائی حاصل کر سکیں۔ چینی مرکزی بینک کے مطابق برکس پلیٹ فارم کو اس نظام میں مرکزی اہمیت دی جائے گی۔ بینک کی ترجمان کے مطابق کرنسیز کے متبادل جوڑوں کا باسکٹ بین الاقوامی تجارت سے امریکہ کی اجارہ داری اور من مانی کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

گزشتہ بدھ کے دن برکس ممالک کی خصوصی میٹنگ کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر ژی جن پنگ نے منصوبے کی تفصیلات باقی ممبر ممالک کے ساتھ شیئر کیں اور یہ انکشاف بھی کیا کہ ترسیل زر اور بین الاقوامی تجارت کے اس متبادل نظام میں سب کو برابر رسائی دی جائے گی اور کسی کے پاس اجارہ داری نہیں ہو گی۔

دریں اثناء چین کے فارن ریزروز اب دنیا میں سب سے زیادہ ہو گئے ہیں پیپلز بینک آف چائنا کے اعلان کے مطابق چین کے پاس اسوقت 3.13 ٹریلین ڈالرز کے فارن کرنسی ریزروز کے ذخائر موجو ہیں جو کہ امریکہ اور یورپ کے مجموعی ریزروز سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہیں۔

امریکہ اور یورپی یونین کے لئے یہ فیصلہ چونکا دینے والا ہے جس کا اندازہ انکے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں نئی مشترکہ کرنسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ڈالر عالمی معاشی نظام کی اکائی اور دنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے جس کی اہمیت ختم نہیں کی جا سکتی۔

یوکرائن پر روسی حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر روس کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ژی جن پنگ کا بھرپور تعاون پیوٹن کے خلاف انکی تمام کوششوں کو بےاثر کر رہا ہے۔ مزید برآں حالیہ اعلان کے نتیجے میں ڈالر، یورو اور جاپانی ین کی طلب (Demand) نہ صرف نصف رہ جائے گی بلکہ یوان ڈالر کے بڑے حریف کے طور پر سامنے آنیوالا ہے۔ جو کہ بلاشبہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کا آغاز ہے۔

Urdumarkets.com کی تحقیقاتی ٹیم گذشتہ سال جون میں برکس ممالک کی اس مشترکہ کرنسی کے حوالے سے چینی یوان پر رپورٹ جاری کر چکی ہے۔ جسے پڑھنے کے لے یہاں کلک کریں

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button