ورلڈ بینک کی رپورٹ ، پاکستانی معیشت سنگین چیلنجز کی شکار ہے۔

بیرونی ادائیگیوں کے معاملے واضح پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔

ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں خصوصی رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔

ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں کیا کہا۔؟

عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک کو فائنانسنگ کے معاملے پر سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ طویل المدتی اہداف کا تعین کرنے کیلئے ایک منتخب حکومت کی ضرورت ہے تا کہ معاشی اہداف کا تعین کیا جا سکے۔ سیاسی عدم استحکام ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔

IMF پروگرام بحال ہونے کے باوجود خطرات بدستور موجود ہیں۔

رپورٹ  میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر مستحکم حالات کے سبب 50 فیصد سے زائد تنخواہ دار طبقہ خط غربت سے نیچے پہنچ چکا ہے۔ نامساعد حالات کے باعث گذشتہ چار ماہ کے دوران 8 لاکھ پڑھے لکھے افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک بڑے Brain Drain کا خدشہ ہے۔

ورلڈ بینک کی تحقیقاتی رہورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان بیرونی فائنانسنگ کے لئے IMF پروگرام بحال ہونے کے باوجود چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر انحصار کر رہا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے قومی امدنی (National Income) کے ذرائع محدود ہو رہے ہیں اور Exports سکڑ رہی ہیں۔

گذشتہ 10 سالہ اعداد و شمار کا تقابلہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہر نئے معاشی سال میں پاکستان کو پہلے سے زیادہ قرضوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ کیونکہ ٹیکس سسٹم نقائص سے بھرپور اوف صرف متوسط درجے پر لاگو ہو رہا ہے۔ بڑی کمپنیاں اور کاروباری افراد یا تو سرے سے ٹیکس ادا ہی نہیں کر رہے ،یا عدالتی فیصلوں کے ذریعے حکومتی اقدامات کے خلاف اسٹے لے لیتے ہیں۔

تغقیقاتی ٹیم نے اپنی فائنڈنگز میں لکھا ہے۔ کہ جنوبی ایشیائی ملک برآمدات کو بڑھانے اور شفاف نظام لاگو کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 23 کروڑ آبادی میں سے صرف 5 لاکھ افراد ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ غیر معقول اقدامات مالی بحران کا باعث بن رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ایلیٹ کلاس ملک میں رہنے پر باہر جانے کو ترجیح دے رہی ہے، اس طرح ملک میں اشرافیہ کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔

نیشنل کونسل آف منسٹرز کے قیام کی تجویز۔

عالمی بینک نے اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لئے بین الصوبائی نمائندوں پر مشتمل نیشنل کونسل آف منسٹرز کے قیام کی تجویز دی ہے۔ تا کہ معاشی نقصانات کا ازالہ کیا جا سکے اور طاقتور بلیک مارکیٹ کے خلاف مربوط حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔

پالیسی ایڈوائس میں کہا گیا ہے۔ کہ معیشت کے تمام شعبوں اور وزارتوں کی کارکردگی کو پبلش کیا جائے تا کہ کارکردگی کا تقابلہ کیا جا سکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو منتقل کئے گئے اختیارات پر بھی عمل درآمد نہیں کیا اور اس پر بیورو کریسی کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ہوتی ہے اور اختیارات کا اصل منبع ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ اور وفاق ہیں۔

مالیاتی انتظامات جوابدہی کو کمزور کرتے ہیں۔

عالمی بینک نے بتایا ہے کہ پاکستان ہائبرڈ نظام پر عمل کر رہا ہے۔ ادارے اختیارات کا استعمال کرتے یوئے چیک اینڈ بیلنس کو کمزور بنا رہے ہیں۔ ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر بھی اسے ادا کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ آخر میں انتباہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اسی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے جو کہ چند ماہ قبل سری لنکا نے کئے تھے۔

اس وقت ملک کی قومی آمدنی سارک ممالک میں سب سے نیچے ہے اور اس کے مقابلے میں بننگلہ دیش، نیپال   بھوٹان اور افغانسان اقتصادی طور پر مضبوط منظر نامہ پیش کر رہے ہیں اور مندرجہ بالا ممالک تجارتی خسارہ ختم کر کے بہتر پوزیشن میں آ ھئے ہیں۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button