Pak Iran Conflict ، کاروباری تعلقات منقطع ، Border Trade بند کر دی گئی.
Chamber of Commerce delegation returned and diplomatic relations suspended
Pak Iran Conflict وسعت اختیار کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات منقطع ہو گئے ہیں Pakistani Foreign Office کی ترجمان زہرہ بلوچ کے مطابق Lahore Chamber of Commerce کے زیر اہتمام Corporate Sector کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جو کہ Tehran کے دورے پر تھا فوری طور پر واپس بلا لیا گیا ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان Border Trade بھی غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دی گئی ہے.
Pak Iran Bilateral Relations انتہائی کشیدہ ، لیکن وجوہات کیا ہیں؟
اگرچہ Iran اور Pakistan کے درمیان تعلقات روایتی طور پر مثبت اور برادرانہ رہے ہیں . 1947 میں قیام پاکستان کے بعد Iran وہ پہلا ملک تھا جسے اس نے تسلیم کیا اور United Nations میں رکنیت حاصل کرنے کیلئے بھی اہم کردار ادا کیا تھا . 1965 کی Indo Pak War میں بھی Iran نے اپنے ہمسائے کی بھرپور امداد کی تھی . ان کے علاوہ Kashmir Issue پر بھی تمام International Forums پر یہ اپنے اسلامی برادر ملک کے لائے بھرپور آواز اٹھاتا رہتا ہے.
گزشتہ تین برسوں کے دوران ان باہمی تعلقات میں اضافہ ہوا اور Taftan Zahedan Economic Zone قائم ہونے سے Border Trade کا حجم 80 کروڑ ڈالرز ماہانہ تک جا پہنچا ہے جو کہ اس سے قبل محض 20 کروڑ ڈالرز تھا . ان تمام حقائق پر نظر ڈالیں تو حالیہ کشیدگی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی . تاہم عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے اور برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات 1979 میں آنیوالے اسلامی انقلاب کے بعد کئی نشیب و فراز سے گزرے ہیں.
انقلاب ایران کے بعد تعلقات میں نشیب و فراز.
جنوبی ایشیائی ملک نے اگرچہ اس انقلاب کا خیر مقدم کیا اور رہبر ایران امام خمینی ملک کے طول و عرض میں انتہائی مقبول رہے . تاہم اسی سال Saudi Arabia میں ہونے والے Grand Mosque Seizure کے بعد پاکستان جیسے جسے خلیجی عرب ملک کے قریب ہوتا چلا گیا. مغربی ہمسائے کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوتے چلے گئے.
خیال رہے کہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد 600 ایرانی افراد نے مسلمانوں کے مقدس ترین مقام Baitullah کا محاصرہ کر کے جہماں الاتابی کی زیر قیادت امام مہندی کی آمد کا اعلان کر دیا.
14 روز تک جاری رہنے والے اس محاصرے میں 1000 سے زاید حجاج جان بحق ہوئے جبکہ اس سال اہم ترین اسلامی فریضہ حج موقوف کر دیا گیا تھا. اس صورتحال میں مسجد الحرام کی بحالی کیلئے Pakistani Special Services Group نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا.
واقعے کے بعد Pakistan اور Saudi Arabia کے درمیان دفاعی تعاون کے کئی معاہدے ہوئے اور Iran Saudia Proxy War میں جنوبی ایشیائی ملک خلیجی ریاستوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا . جبکہ اس دوران Iran اور India ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے.
شیعہ اکثریتی ایران کے پاکستان کے ساتھ متصل سنی اکثریتی صوبے Sistan Balochistan میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی تو ایران نے اسکا الزام پاکستان اور سعودی عرب پر عائد کیا . دوسری طرف 2010 سے Pakistani صوبے Balochistan میں سرگرم دہشت گرد گروپ جن میں سرفہرست Baloch Liberation Army ہے کی پشت پناہی کا الزام Iran پر عائد ہوتا رہا ہے . یہ امر بھی قابل ذکر ہے ہے کہ بھارتی دہشت گرد گلبھوشن یادو ایران کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوئے تھے.
Border Trade کا باقاعدہ آغاز اور تعلقات کا ایک نیا دور.
سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان Border Trade کو باقاعدہ شکل دی گئی اور اسکا حجم 400 گنا بڑھ گیا . Pakistan میں China کے ساتھ تعاون سے شروع ہونے والے CPEC اور Gwadar Port کی ترقی کے منصوبے پر ایران کوئی ابتدا میں شدید تحفظات تھے . اسکی بڑی وجہ اسکا ایرانی سرحد کے بالکل قریب ہونا تھا . تاہم اسکے چین و ایران کی قربت بڑھنے اور Chah Bahar میں سرمایہ کاری کے ساتھ ایرانی موقف یکسر تبدیل ہو گیا .
2022 میں ایرانی حکومت نے Gwadar Chah Bahar بندرگاہوں کو منسلک کرنے اور اس تمام علاقے کو Special Economic Zone میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا . جس میں کلیدی کردار China کا تھا . اس مجوزہ منصوبے کے تحت باہمی تجارت کا حجم 2 سو ارب ڈالرز تک جانے کا تخمینہ تھا . تاہم اس کے بعد 15 جنوری 2024 آیا اور سب کچھ تبدیل ہو گیا .
کیا Pak Iran Conflict کےبعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ARY News سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار آصف قریشی کا کہنا ہے کہ اسوقت دونوں اطراف میں شدید سرد مہری اور تناؤ ہے لیکن دونوں کے درمیان اختلافات کی جڑیں گہری نہیں ہیں . دونوں ممالک کے عوام ثقافتی اور مذہبی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں . جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت ایران ہم پر حملہ کر رہا تھا اسی دن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ Devos میں Iranian Foreign Minister سے ملاقات میں باہمی تعلقات کی مضبوطی کے عزم کا اعادہ کر رہے تھے .
کیا دونوں ممالک کے باہمی تعلقات خراب ہونے سے چینی مفادات پر اثرات مرتب ہوں گے.
آصف قریشی کے خیال میں اسوقت چینی سرمایہ کاری دونوں ممالک کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے . جو ان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے . تاہم انکا کہنا ہے کہ سفارتی اور معاشی تعلقات معمول پر آنے میں وقت درکار ہے . کیونکہ چند روز میں جو ہو چکا ہے اس کے اثرات اگر طویل المدتی نہیں تو مستقبل قریب پر ضرور مرتب ہوں گے .
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران اسوقت Gaza اور Hizballah کے معاملے میں الجھا ہوا ہے . جبکہ Red Sea Seizure اور Yemen پر اتحادی ممالک کے حملے سے بھی مغربی ہمسایہ سفارتی تنہائی کا شکار ہے . ایسے میں Pakistan کے ساتھ کشیدگی ایرانی مفاد میں بھی نہیں ہے . جس کا احساس اسے جلد ہونا شروع ہو جائیگا.
آصف قریشی کے مطابق ایرانی حملے کی ٹائمنگ معنی خیز ہے کیونکہ دو روز قبل بھارتی وزیر خارجہ تہران میں موجود تھے اور انکے جاتے ہی پاکستانی سرزمین پر اس حملے سے ہمارے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ایران اور بھارت مشترکہ مہم جوئی کا ارادہ رکھتے ہیں
تجارتی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بندھے ہوئے دونوں ممالک کے عوام اس تنازعے سے دکھ اور حیرانگی کے شکار ہیں ، Arab Israel War اعصابی طور پر Islamic World کو ؛؛اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے . ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے نہ صرف اقتصادی بلکہ معاشرتی طور پر بھی معملات پیچیدہ ہونے کا اندیشہ ہے.
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔