امریکہ اور BRICS کے درمیان تنازعہ: US Dollar کا مستقبل کیا ہے؟
Kremlin warned the White House on Forcibly continuation of USD in Global Trade
دنیا کی اقتصادی اور جغرافیائی سیاست میں United States اور BRICS ممالک کے درمیان تنازعہ ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ BRICS، جس میں Brazil، Russia، India، China، اور South Africa شامل ہیں. نے حالیہ برسوں میں US Dollar کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کیا واقعی US Dollar کا متبادل ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
BRICS کی نئی کرنسی کی کوشش
BRICS ممالک نے تجویز دی ہے کہ عالمی تجارت کو امریکی ڈالر سے آزاد کرنے کے لیے ایک نئی مشترکہ کرنسی بنائی جائے۔ یہ تجویز خاص طور پر روس اور چین کی قیادت میں پیش کی گئی ہے. تاکہ عالمی تجارت میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔ لیکن تنظیم کے اندرونی اختلافات اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ اب تک عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
امریکی دھمکیاں اور BRICS کا ردعمل.
حالیہ دنوں میں، سابق امریکی صدر Donald Trump نے BRICS کی ان کوششوں کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک امریکی ڈالر کی جگہ لینے کی کوشش کرے گا. تو ان پر 100 فیصد تک Tariffs عائد کیے جائیں گے۔
ٹرمپ کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ BRICS کی پیش قدمی کو ایک سنگین خطرہ سمجھتا ہے، کیونکہ:
- Dollar Dominance کا ختم ہونا امریکی معاشی طاقت کو کمزور کر سکتا ہے۔
- یہ امریکی Foreign Policy اور تجارتی پابندیوں کے مؤثر ہونے پر سوالیہ نشان لگائے گا۔
- اگر BRICS ممالک کامیاب ہو جاتے ہیں، تو امریکی معیشت میں Global Investments میں کمی ہو سکتی ہے۔
روس کا امریکی Dollar پر انحصار کم کرنے کا اعلان
روس نے امریکی سابق صدر Donald Trump کی BRICS ممالک کے خلاف سخت دھمکیوں پر اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ Kremlin کے ترجمان Dmitry Peskov نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ کی جانب سے Dollar کے استعمال پر مجبور کرنے کی کوئی بھی کوشش قبول نہیں کی جائے گی اور ایسی صورت میں روس بھرپور Counteraction کرے گا۔
Foreign Media Reports کے مطابق، ترجمان کریملن نے کہا کہ امریکی ڈالر اب بہت سے ممالک کے لیے Reserve Currency کے طور پر اپنی طلب کھو رہا ہے۔ Global Trade اور International Reserves میں امریکی ڈالر کی اہمیت کم ہو رہی ہے، خاص طور پر BRICS ممالک کے اتحاد کے بعد۔
روس کا کہنا ہے کہ امریکہ کی Economic Sanctions کی پالیسی، جو ڈالر کے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، عالمی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
خیال رہے کہ نو منخب شدہ امریکی صدر Donald Trump نے BRICS ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہوں نے کوئی نئی Currency متعارف کروائی تو امریکہ ان پر 100 فیصد تک Tariffs عائد کرے گا۔ یہ بیان نہ صرف BRICS ممالک کے خلاف تھا بلکہ امریکی ڈالر کے غلبے کو چیلنج کرنے والی تمام کوششوں کے خلاف ایک سخت پیغام بھی تھا۔
US Dollar کی بالادستی: ایک تاریخی جائزہ
US Dollar کا عالمی کرنسی بننے کا سفر Bretton Woods Conference سے شروع ہوا، جب دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی معیشت دنیا کی سب سے مضبوط معیشت بن کر ابھری۔
- امریک خزانے میں دنیا کا سب سے بڑا Gold Reserve موجود تھا۔
- عالمی معاہدے کے تحت، امریکی ڈالر کو سونے کے ساتھ منسلک کیا گیا، جس نے اسے Reserve Currency کا درجہ دیا۔
- IMF اور World Bank جیسے اداروں نے امریکی ڈالر کو بین الاقوامی قرضوں اور مالی معاملات کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔
یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے ڈالر کو Global Financial System میں مرکزی حیثیت دی۔
کیا US Dollar کا متبادل ممکن ہے؟
اگرچہ BRICS ممالک ایک متبادل کرنسی کے خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن Global Financial Experts کے مطابق یہ آسان نہیں:
- Liquidity Issues: ایک نئی کرنسی کو عالمی سطح پر قابل قبول بنانے کے لیے بڑی مقدار میں تجارت اور لیکویڈیٹی کی ضرورت ہے۔
- Trust Deficit: BRICS ممالک کے اندرونی سیاسی اختلافات اور شفافیت کی کمی اس کرنسی پر اعتماد قائم کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
- US Financial Markets: امریکی مالیاتی منڈیاں آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ مستحکم اور کھلی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار امریکی ڈالر کو اب بھی محفوظ سمجھتے ہیں۔
چین کا Yuan یا روس کا Ruble ابھی تک اس معیار کو نہیں پہنچ سکے جہاں وہ امریکی ڈالر کا مقابلہ کر سکیں۔
امریکی ڈالر کی بالادستی ختم ہونے کے اثرات
اگر BRICS یا دیگر ممالک US Dollar کے غلبے کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ عالمی معیشت پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف امریکہ بلکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، عالمی تجارت، اور مالیاتی نظام کو بھی متاثر کریں گی۔
US Dollar کی بالادستی کا خاتمہ ایک ایسی عالمی معیشت کو جنم دے سکتا ہے جو زیادہ Multipolar اور Decentralized ہو۔ تاہم، یہ تبدیلی فوری نہیں بلکہ تدریجی ہو گی، اور اس کے دوران دنیا کو مالیاتی عدم استحکام کے کئی ادوار کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا BRICS اور دیگر ممالک ڈالر کے متبادل نظام کو کامیابی سے نافذ کر سکتے ہیں یا نہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ امریکی معیشت اور عالمی تجارتی نظام کو ایک نئے دور کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
US Economy
امریکی معیشت کو عالمی Reserve Currency کی حیثیت کھونے کی صورت میں درج ذیل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے:
- قرض لینے کی لاگت میں اضافہ:
امریکی حکومت اور کاروبار طویل عرصے سے کم شرح سود پر قرض حاصل کرتے رہے ہیں. کیونکہ ڈالر عالمی معیشت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ڈالر کی مانگ کم ہو جائے. تو امریکی Treasury Bonds کی طلب میں کمی واقع ہو سکتی ہے. جس کے نتیجے میں سود کی شرح بڑھ جائے گی۔ - غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی:
غیر ملکی سرمایہ کار امریکی معیشت میں سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھتے ہیں. لیکن ڈالر کی حیثیت کمزور ہونے پر یہ رجحان بدل سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں Stock Market اور Real Estate جیسے شعبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ - Trade Deficit میں اضافہ:
ڈالر کے غلبے کی وجہ سے امریکہ اپنے تجارتی خسارے کو سہولت سے برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ غلبہ ختم ہو جائے. تو امریکہ کو تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اپنی پیداوار بڑھانے اور درآمدات کو محدود کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
Global Trade
عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کا استعمال ختم ہونے کے اثرات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
- زیادہ پیچیدہ مالیاتی لین دین:
فی الحال، ڈالر کا استعمال عالمی تجارت میں سہولت پیدا کرتا ہے. کیونکہ یہ ایک معیاری کرنسی ہے۔ اگر متعدد کرنسیاں لین دین میں شامل ہو جائیں. تو ممالک کو Currency Conversion Costs کا سامنا کرنا پڑے گا. جس سے تجارت مہنگی اور پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ - Exchange Rate Volatility:
ڈالر کی جگہ کئی کرنسیوں کا استعمال عالمی مارکیٹ میں Volatility بڑھا سکتا ہے۔ جب مختلف کرنسیاں لین دین میں شامل ہوں گی. تو ان کے Exchange Rates میں تغیر عالمی معیشت کے لیے ایک نیا چیلنج ہو گا۔ - Regional Trade Agreements:
مختلف کرنسیوں کا استعمال ممکنہ طور پر علاقائی تجارتی معاہدوں کو فروغ دے سکتا ہے. جہاں ممالک اپنی کرنسیاں استعمال کریں گے۔ اس سے عالمی تجارت کے روایتی ماڈل میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
Developing Nations
ترقی پذیر ممالک کو امریکی ڈالر کی بالادستی ختم ہونے کے بعد اہم چیلنجز اور مواقع کا سامنا ہو سکتا ہے:
- مالیاتی نظام کی تبدیلی:
ترقی پذیر ممالک کو ایک نئی Common Currency یا متبادل نظام کو اپنانے کے لیے اپنے Central Banks، Payment Systems، اور Trade Policies میں بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ یہ ایک مہنگا اور وقت طلب عمل ہو سکتا ہے۔ - اقتصادی مواقع:
ڈالر پر انحصار کم ہونے سے ترقی پذیر ممالک کو اپنی کرنسیوں کو عالمی سطح پر نمایاں کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ ان کے مالیاتی خود مختاری میں اضافہ کر سکتا ہے. اور Local Economies کو فروغ دے سکتا ہے۔ - قرضوں کی ادائیگی میں آسانی:
امریکی ڈالر میں قرض لینے والے ترقی پذیر ممالک کو نئی کرنسیوں میں تجارت کرنے سے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں نرمی مل سکتی ہے. خاص طور پر اگر ان کرنسیوں کی قدر مستحکم ہو۔
مستقبل کی سمت
BRICS اور امریکہ کے درمیان تنازع اس بات کا اشارہ ہے. کہ عالمی معاشی نظام تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ امریکی ڈالر اپنی جگہ کھو دے گا۔
- امریکی ڈالر آج بھی دنیا کے تقریباً 60 فیصد Foreign Reserves میں موجود ہے۔
- International Trade کے 80 فیصد سے زیادہ معاہدے ڈالر میں ہوتے ہیں۔
لہٰذا، امریکی ڈالر کا غلبہ ابھی برقرار ہے. لیکن BRICS کی کوششیں مستقبل میں ایک Multipolar Currency System کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔
White House کی اگلی انتظامیہ اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے. اسکی ایک جھلک ہم نے گزشتہ دو روز کے دوران نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے دیکھی ہے . تاہم اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ Trade War کیا رخ اختیار کرتی ہے. اس کے لئے ہمیں 20 جنوری تک انتظار کرنا پڑے گا . کیونکہ China اور BRICS کے دیگر ممالک Global Economy میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں اور انکے بغیر Globalization کا تصور بھی ناممکن ہے.
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔