BRICS Economic Forum کتنا اہم ہے اور Pakistan اسکی رکنیت کیوں حاصل نہیں کر سکا؟
Russia and China supported Islamabad's inclusion, but India had different stance
Pakistan کی BRICS Economic Forum میں شمولیت ایک اہم سوال ہے جس کا جواب کئی پہلوؤں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ BRICS کی تنظیم نے حالیہ اجلاس میں نئے ارکان کا خیرمقدم کیا، لیکن Russia اور China جیسی عالمی طاقتوں کی بھرپور سپورٹ کے باوجود Pakistan اس موقع پر شمولیت سے محروم رہا۔ جس کی بنیادی وجہ New Delhi اور Islamabad کے درمیان سرد مہری پر مبنی تعلقات ہیں.
ذیل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان محرکات کا جائزہ لیں جن کی وجہ مغرب کا بدترین مخالف ملک Iran تو اس اہم فورم میں شامل کر لیا گیا. تاہم Turkey اور Pakistan اس سے محروم رہے . نیز اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک کے نقطۂ نظر کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں.
BRICS Economic Forum کی وسعت اور اس کی اہمیت
مغربی ناقدین نے ہمیشہ BRICS کو غیر اہم سمجھا. لیکن حالیہ اجلاس نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا۔ United Nations کے سیکریٹری جنرل اور 36 ممالک کے رہنما تین دن تک جاری رہنے والے اجلاس میں شریک ہوئے. جہاں BRICS نے مصر، ایتھوپیا، ایران، اور United Arab Emirates کو باضابطہ طور پر خوش آمدید کہا۔
BRICS Economic Forum پاکستان کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے. جس کے ذریعے ملک عالمی اقتصادی تعاون میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ فورم ترقی پذیر ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
عالمی تعاون کا پلیٹ فارم
BRICS، جس میں Brazil، Russia، India، China، اور South Africa شامل ہیں، ایک مضبوط اقتصادی اتحاد ہے۔ Pakistan کے لیے یہ فورم عالمی اقتصادی شراکت داری کے قیام کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جہاں مختلف ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
سرمایہ کاری کے مواقع
BRICS Economic Forum میں شمولیت سے Pakistan کو غیر ملکی Investment کے مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس فورم کے ذریعے، Pakistan اپنی Investment Climate کو بہتر بنا کر عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر سکتا ہے۔ خاص طور پر China کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے کی صورت میں CPEC جیسے منصوبے بھی ترقی پا سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی منتقلی
ان ممالک کے درمیان Technology Transfer کا عمل بھی جاری ہے۔ Pakistan اس فورم سے فائدہ اٹھا کر جدید Technology حاصل کر سکتا ہے، جو کہ ملک کی صنعتی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ Renewable Energy اور Agricultural Technology میں تعاون سے Pakistan کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
غرض یہ کہ BRICS Economic Forum پاکستان کے لیے ایک اہم موقع ہے، جو ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے، سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے، اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر Pakistan اس فورم کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لائے، تو یہ ملک کی ترقی کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے۔
India کا نقطۂ نظر
India نے نئے BRICS ارکان سے قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں. خاص طور پر United Arab Emirates اور Ethiopia کے ساتھ۔ یہ تعلقات انڈیا کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں. اور وہ اس تنظیم کے ابتدائی رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔
تاہم New Delhi کبھی اپنے دیرینہ حریف Pakistan اور اسکے سب سے قریبی حلیف Turkey کو اس اتحاد میں شامل کرنے پر رضامند نہیں ہے . جس سے اسکے کشیدہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے .
ثانی الذکر ملک یعنی Turkey ہمیشہ سے پاک بھارت کشیدگی میں اسلام آباد کا حلیف رہا ہے . مسئلہ کشمیر پر اس نے ہمیشہ اپنے دوست ملک کی حمایت کی ہے . بالخصوص موجودہ صدر رجب طیب اردوگان BJP کی حکومت کیلئے ناپسندیدہ شخصیت رہے ہیں.
چین اور روس کے ساتھ بھارتی تعلقات
India کی Russia کے ساتھ دوستی اور China کے ساتھ محتاط تعاون اسے ایک منفرد حیثیت عطا کر رہا ہے۔ حالیہ اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی چینی صدر Xi Jinping کے ساتھ ملاقات نے ان کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔
Strategic Autonomy کا فروغ
BRICS میں شمولیت سے India کو اپنی Strategic Autonomy کو بڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے ذریعے India مغرب کے ساتھ اپنی شراکت داری کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف خطوں میں اہم کھلاڑیوں سے تعلقات قائم رکھ سکتا ہے۔
مغرب کے لیے چیلنجز اور خدشات
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ BRICS میں نئے اراکین کی شمولیت سے یہ تنظیم مغرب کے خلاف ہو سکتی ہے. خاص طور پر Iran کی شمولیت کے بعد۔ اگرچہ India مغربی دنیا اور غیر مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے. لیکن وہ کسی بھی ایسی کوشش کا حصہ بننے سے گریز کرے گا جو واضح طور پر مغرب مخالف ہو۔
مستقبل کی ممکنہ شمولیت
Turkey اور Vietnam جیسے ممالک کی ممکنہ شمولیت بھی زیر غور ہے. لیکن یہ ممالک بھی مغرب مخالف نہیں سمجھے جاتے۔ BRICS کے اجلاس میں منصوبوں کا ذکر کیا گیا. جیسے کہ ایک International Payment System کا قیام، جو کہ US Dollar پر مبنی نہ ہو۔ یعنی ایک طرح سے یہ نئے Multi Polar World Order کے اعلان کی کوشش تھی.
BRICS ممالک نے حالیہ برسوں میں De-Dollarization کی سمت میں اہم اقدامات کیے ہیں۔ یہ اقدام عالمی مالیاتی نظام میں US Dollar پر انحصار کم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، جس سے ان ممالک کی اقتصادی خودمختاری میں اضافہ ہوگا۔
De-Dollarization کی ضرورت
Dollar عالمی تجارت کا اہم ترین ذریعہ ہے، لیکن اس کی حکمرانی نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو Economic Vulnerability کا شکار بنایا ہے۔ جب عالمی منڈیوں میں US Dollar کی قیمت میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، تو اس کا براہ راست اثر ان ممالک کی معیشت پر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے BRICS نے ایک متبادل مالیاتی نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا BRICS Economic Forum درحقیقت Brazil، Russia، India، China، اور South Africa پر مشتمل ہے۔ یہ ممالک ایک متبادل اقتصادی ماڈل کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں جس میں Dollar کی بجائے مقامی کرنسیوں کا استعمال کیا جائے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر Economic Sovereignty کو فروغ دینا ہے۔
BRICS ممالک نے Local Currency Trade کو فروغ دینے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ اس کے تحت، ان ممالک کے درمیان تجارتی معاہدات مقامی کرنسیوں میں کیے جا رہے ہیں، جس سے Dollar کی ضرورت کم ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر، China اور Russia نے اپنے تجارتی معاہدوں میں Ruble اور Yuan کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
Alternative Payment System پر اتفاق.
BRICS نے Alternative Payment Systems کے قیام پر بھی زور دیا ہے۔ اس کا مقصد ایسے مالیاتی نظام کو تشکیل دینا ہے جو US Dollar کے زیر اثر نہ ہو۔ یہ نظام عالمی تجارت کو Sanctions اور مالی پابندیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ BRICS ممالک میں ایک مشترکہ Payment System کے قیام پر غور کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے تجارتی لین دین کو مزید سہل بنایا جا سکے۔
De-Dollarization کا منصوبہ BRICS Economic Forum کے مستقبل کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ اگر یہ ممالک اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عالمی مالیاتی نظام میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی خودمختاری میں اضافہ ہوگا. اور عالمی تجارت میں US Dollar کا غلبہ کم ہوگا۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔