فیڈرل ریزرو کی سخت مانیٹری پالیسی کے بعد بھی امریکی معیشت پر کساد بازاری کے خطرات اب بھی کیوں مڈلا رہے ہیں ؟
جون کی مانیٹری پالیسی میں فیڈرل ریزرو کی طرف سے 75 بنیادی پوائنٹس شرح سود کے اضافے سے کسی کو حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ اس کے اشارے پہلے سے ہی دیئے جا رہے تھے سس لئے کہ افراط زر اور توانائی کا بحران دونوں ہی دیمک کی طرح امریکی معیشت کو کھا رہے ہیں اور عالمی معاشی افق پر بھی کساد بازاری کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ ایشیائی اور یورپی ممالک پہلے سے ہی اس فیز میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لئے فیڈ کی طرف سے اگرچہ یہ شرح سود کا یہ اضافہ لگ بھگ پچھلے 30 سال میں ڈالر کے ایکسچینج ریزروز پر ہونیوالا سب سے بڑا اضافہ ہے لیکن پچھلے ہفتے کی امریکی کنزیومر پرائس انڈیکس اور انفلیشن رپورٹ کے بعد ایسا کرنا ناگزیر ہو چکا تھا ۔ معاشی ماہرین اس توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ شرح سود میں اضافے سے افراط زر کر قابو کرنے اور معیشت کو مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی کیونکہ انفلیشن رپورٹ ظاہر کر رہی ہے کہ امریکی افراط زر پچھلے 40 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور امریکہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی شرح پہلی بار دوہرے ہندسے میں داخل ہو چکی ہے۔ جون میں مہنگائی 15 فیصد کی ریکارڈ شرح سے بڑھی ہے اور معاشی ادارے وارننگ دے رہے ہیں کہ اگست تک یہ 35 سے 40 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اسی افراط زر کو کچلنے کے لئے فیڈرل ریزرو شرح سود میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے لیکن ماہرین اسی امر پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ مانیٹری پالیسی کے اتنے سخت نفاذ کے باوجود اب تک امریکی مرکزی بینک بحران کو کنٹرول کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہا ہے آج جاری کئے گئے شرح نمو کے تخمینے کے مطابق اس سال امریکی معیشت کا گروتھ ریٹ 1.7 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ اسی لئے فیڈرل ریزرو جولائی میں بھی 75 بنیادی پوائنٹس شرح سود بڑھانے کے اشارے دے رہا ہے ۔ لیکن اگر اس سے ڈالر مستحکم ہو بھی جاتا ہے تو عالمی معیشت سنگین مسائل سے دوچار ہو جائے گی کیونکہ ڈالر کے ایکسچینج ریٹ پر شرح سود میں مسلسل اضافہ دنیا کی دیگر تمام کرنسیز کو غیر مستحکم کر رہا ہے جس سے عالمی معاشی بحران کساد بازاری کے مرحلے میں داخل ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر ایسا ہوا تو یقینی طور پر یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بدترین عالمی معاشی منظر نامہ ہو گا۔ اگرچہ فیڈرل ریزرو کے پالیسی ساز اس سے بھی جارحانہ انداز میں جولائی اور اگست میں مانیٹری پالیسی کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم وہ یہ اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ اگلے چند ماہ میں کساد بازاری کے بدترین سلسلے سے بچا نہیں جا سکے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیشگوئی بھی کر رہے ہیں کہ اگلے چند سال میں امریکی اور عالمی معیشت اس بھنور سے نکل نہیں سکے گی۔ اس لئے ماہرین معاشیات کے خیال میں مانیٹری پالیسی کو کسی حد تک نرم کرنا چاہیئے تا کہ معاشی بحران کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ اور ایسا کرتے وقت دنیا کے باقی معاشی اداروں کے ساتھ نہ صرف اعداد و شمار شیئر کرنے چاہیئے بلکہ مشترکہ معاشی سمت کو تعین بھی کیا جانا چاہیئے۔ کیونکہ ڈالر کے علاوہ ین سے لے کے یوان اور یورو تک سبھی کرنسیز عالمی معیشت کا حصہ ہیں۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔