Reverse Repo Rate in Pakistan

Reverse Repo Rate ریورس ریپو ریٹ ایک اہم مالیاتی اصطلاح ہے جو مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی (Monetary Policy) کا حصہ ہوتی ہے۔ یہ شرح اس وقت استعمال ہوتی ہے۔ جب کمرشل بینک اپنے اضافی پیسے مرکزی بینک (جیسے پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے پاس جمع کراتے ہیں۔ اور بدلے میں ان پر مرکزی بینک انہیں ایک خاص شرحِ منافع دیتا ہے۔
Reverse Repo Rate ریورس ریپو ریٹ کی سادہ وضاحت:
لفظ "ریورس” سے مراد الٹ سمت ہے۔
جب مرکزی بینک کمرشل بینکوں سے پیسہ لیتا ہے۔ (عارضی طور پر قرض لیتا ہے) تو وہ بدلے میں انہیں شرحِ منافع ادا کرتا ہے۔
اسی شرحِ منافع کو ریورس ریپو ریٹ کہا جاتا ہے۔
یعنی:
جب بینک مرکزی بینک کو پیسہ دیتے ہیں۔ اور مرکزی بینک انہیں منافع دیتا ہے۔ تو وہ منافع کی شرح ریورس ریپو ریٹ کہلاتی ہے۔
ریورس ریپو ریٹ کا مقصد:
1. مارکیٹ میں لیکویڈیٹی کنٹرول کرنا:
اگر مارکیٹ میں بہت زیادہ نقد رقم (Liquidity) ہو جائے تو مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔
مرکزی بینک Reverse Repo Rate ریورس ریپو ریٹ بڑھا کر بینکوں کو ترغیب دیتا ہے۔ کہ وہ اپنا پیسہ مرکزی بینک کے پاس جمع کرا دیں۔ تاکہ مارکیٹ میں نقدی کم ہو جائے۔
2. افراطِ زر (Inflation) پر قابو پانا:
جب مرکزی بینک ریورس ریپو ریٹ بڑھاتا ہے تو کمرشل بینک کم قرض دیتے ہیں۔ اس طرح مارکیٹ میں پیسے کی گردش کم ہوتی ہے۔ اور مہنگائی پر دباؤ کم آتا ہے۔
3. مانیٹری پالیسی کا توازن برقرار رکھنا:
ریپو ریٹ (Repo Rate) اور ریورس ریپو ریٹ دونوں کے ذریعے مرکزی بینک معیشت میں پیسوں کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے۔
ریپو ریٹ اور Reverse Repo Rate ریورس ریپو ریٹ میں فرق:
پہلو ریپو ریٹ (Repo Rate) ریورس ریپو ریٹ (Reverse Repo Rate)
مرکزی بینک کا کردار بینکوں کو قرض دیتا ہے۔ بینکوں سے رقم لیتا ہے
بینکوں کا کردار مرکزی بینک سے قرض لیتے ہیں۔ مرکزی بینک کو قرض دیتے ہیں
شرح کا اثر شرح زیادہ ہونے سے قرض مہنگا ہو جاتا ہے۔ شرح زیادہ ہونے سے بینک پیسہ واپس مرکزی بینک میں جمع کراتے ہیں
بنیادی مقصد نقدی میں اضافہ نقدی میں کمی
پاکستان میں ریورس ریپو ریٹ کی اہمیت:
پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) اپنی پالیسی ریٹ (Policy Rate) کے ساتھ ساتھ ریپو اور ریورس ریپو ریٹس کو بھی طے کرتا ہے۔
ریورس ریپو ریٹ عام طور پر پالیسی ریٹ سے کم ہوتی ہے۔
جب پالیسی ریٹ میں تبدیلی کی جاتی ہے، تو ریورس ریپو ریٹ بھی اسی تناسب سے ایڈجسٹ کی جاتی ہے تاکہ:
بینکنگ نظام میں لیکویڈیٹی کو منظم کیا جا سکے۔
افراطِ زر کو کنٹرول کیا جا سکے۔
مارکیٹ ریٹ آف انٹرسٹ میں توازن قائم رکھا جا سکے۔
مثال کے طور پر:
اگر اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 22% ہو اور ریورس ریپو ریٹ 21% ہو،
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کمرشل بینک اپنا پیسہ اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کرائیں تو انہیں 21% سالانہ منافع ملے گا۔
اس سے بینکوں کے لیے یہ زیادہ پرکشش ہو جاتا ہے کہ وہ مارکیٹ میں قرض دینے کی بجائے اپنی رقم مرکزی بینک میں پارک کریں — یوں مارکیٹ میں نقدی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔
ریورس ریپو ریٹ میں کمی یا اضافہ — اثرات:
ریورس ریپو ریٹ میں اضافہ بینک زیادہ رقم مرکزی بینک میں جمع کراتے ہیں → مارکیٹ میں نقدی کم → مہنگائی میں کمی
ریورس ریپو ریٹ میں کمی بینک کم رقم مرکزی بینک میں رکھتے ہیں → مارکیٹ میں نقدی زیادہ → سرمایہ کاری اور قرض میں اضافہ
عالمی منظرنامہ:
امریکہ میں: فیڈرل ریزرو "Overnight Reverse Repo Facility” کے ذریعے یہ شرح مقرر کرتا ہے۔
بھارت میں: ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) پالیسی ریٹ اور ریورس ریپو ریٹ کے ذریعے مانیٹری فلو کو کنٹرول کرتا ہے۔
پاکستان میں: اسٹیٹ بینک اپنی اوپن مارکیٹ آپریشنز (OMO) کے ذریعے ان شرحوں کو استعمال کرتا ہے تاکہ بینکنگ نظام میں توازن قائم رہے۔
خلاصہ:
ریورس ریپو ریٹ وہ شرحِ سود ہے جو مرکزی بینک کمرشل بینکوں کو ادا کرتا ہے جب وہ اپنی اضافی رقم مرکزی بینک کے پاس جمع کراتے ہیں۔
یہ مانیٹری پالیسی کا ایک طاقتور آلہ ہے جو معیشت میں لیکویڈیٹی، افراطِ زر، اور سود کی شرحوں کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔



