اس ہفتے عالمی معیشت پر اثرآنداز ہونے والے اہم واقعات

اس ہفتے عالمی معاشی افق پر اہم ترین واقعات رونما ہوئے جنہوں نے جاپان سے لے کے نیوزی لینڈ اور اٹلی سے امریکہ تک عالمی معاشی نظام کو غیر مستحکم کر دیا ۔ یوں تو یوکرائن پر روسی حملے کے بعد سے عالمی معیشت کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے لیکن اس ہفتے کے دوران روس کی طرف سے یوکرائن کے ایک بڑے حصے کو روس میں ضم ( Merge ) کرنے کے لئے ریفرینڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے بعد یوکرائن کے 20 فیصد سے زائد رقبے کو روس میں شامل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔ ان میں لویانسک اور ڈونسٹیک کی وہ ریاستیں بھی شامل ہیں جنہیں روس نے یوکرائن کے ساتھ جنگ کے آغاز سے قبل خودمختار ممالک کے طور پر تسلیم کیا تھا تاہم روس کے علاوہ دنیا کا کوئی اور ملک ان ریاستوں کو الگ ممالک کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ روسی صدر نے یوکرائن جنگ کو وسعت دینے کے لئے اپنی مزید افواج کو یوکرائن بھجوانے کا اعلان کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں ( Nuclear Weapons ) کے استعمال کی دھمکی بھی دی ۔ اس کے نتیجے میں تمام عالمی مارکیٹس میں شدید مندی کو رجحان رہا اور سرمایہ کار Risk Assets کی خریداری سے کنارہ کش ہو گئے۔ اس سے

بدھ کو امریکی فیڈرل ریزرو ( Federal Reserve ) نے ایک بار پھر 75 بنیادی پوائنٹس شرح سود ( Interest Rate ) میں اضافہ کرنے کےساتھ ساتھ ڈالر کے ایکسچینج ریزرو ریٹس ( Currency Reserve Rates ) میں بھی اضافہ کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا بھر کے معاشی اعشاریوں ( Financial Indicators ) پر منفی اثرات مرتب ہوئے بلکہ Crptomarket بے ایک بار پھر اپنے Fundamentals کو کھو دیا۔ ڈالر (USD ) چونکہ عالمی مالیآتی نظام ( International Monetary System ) کی مرکزی اکائی ہے اور دنیا بھر کی کرنسیز چاہے وہ حقیقی ہوں یا ڈیجیٹل ، ان کی قدر کا تعین امریکی ڈالر کے ساتھ موازنے سے ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ Bitcoin اسکے بعد 18 ہزار ڈالر فی کوائن تک نیچے آیا۔ Ethereum بھی اپنی بنیادی سپورٹ 13 سو ڈالر سے نیچے ٹریڈ کرتا یوا نظر آیا۔ اس فیصلے کے بعد تمام عالمی مارکیٹس کریش کرنے جیسی صورتحال سے دوچار یوئین۔ امریکی ڈالر کے ریزرو ریٹ میں تبدیلی سے سرمایہ کاروں کا رجحان Equities سے امریکی ڈالر کی طرف منتقل ہوا جس کے نتیجے میں Dow Jones نے 30 ہزار کی نفسیاتی سپورٹ بھی توڑ دی۔ دیگر عالمی مارکیٹس کی صورتحال بھی مختلف نہیں تھی۔ عالمی مارکیٹس 2020 ء کی سطح تک گراوٹ کی شکار ہوئیں۔ Forex Market میں Euro اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ Japanese Yen بھی 24 سال بعد 146 کی سطح تک نیچے آ گیا۔ جبکہ چینی یوان ( CNY ) نے بھی 7.0000 کی سطح اپنی تاریخ میں پہلی بار دیکھی۔ ان کے علاوہ دنیا کے مضبوط ترین Fundamentals کی حامل کرنسی سوئس فرانک ( CHF ) بھی پہلی بار Parity Level سے نیچے آئی۔

اس صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو حقیقی زر سونے ( Gold ) کی رسد کا عدم استحکام ہے جس کی بنیاد پر تمام مالی ٹرانزیکشنز (Financial Transactions ) کا تعین کیا جاتا ہے۔ جس کے بعد جاپانی مرکزی بینک ( Bank of Japan ) نے اپنی کرنسی Yen کو مستحکم کرنے کے لئے Open Market Interference یعنی فاریکس مارکیٹ میں مداخلت کا اعلان کر دیا۔ جاپانی ین ایشیائی کا مرکزی مالیاتی یونٹ یے اور اس کے Bonds سے ڈالر کی ڈیمانڈ کم کرنے کے ایک بار پھر جاپان سے لے کر ایشیائی مارکیٹس سے منسلک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک کے معاشی اعشاریے ( Financial Indicators ) متاثر ہوئے اور عالمی نظام رسد کا توازن بری طرح سے بگڑ گیا۔ جبکہ کئی ممالک نے جاپانی مرکزی بینک کے خلاف جوابی اقدامات کرنے کا اعلان بھی کیا جن میں سرفہرست کوریائی مرکزی بینک ( Bank of Korea ) ہے جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے Reserve Banks بھی جوابی اقدامات کی تیاری کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں دنیا کے بیشتر ممالک کساد بازاری کے شکار ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جبکہ یورپی مرکزی بینک ( ECB ) اور Bank of England نے کساد بازاری (Recession ) کے آغاز کا تو باقاعدہ اعلان بھی کر دیا۔
گزشتہ روز برطانوی حکومت نے کساد بازاری ( Recession ) اور حد سے بڑھی ہوئی افراط زر ( Inflation ) کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹیکس پلان پر نظرثانی کی اور Corporate Sectorکے لئے 25 فیصد مجوزہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کر دیا۔ اس سے قبل جاری کئے جانے والے ٹیکس پلان میں کارپوریٹ سیکٹر پر بھاری انکم ٹیکس عائد کیا گیا تھا تاہم گذشتہ روز برطانوی مرکزی بینک (Bank of England ) نے اپنی رپورٹ میں انکم ٹیکس میں کمی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انگلینڈ اور ویلز کساد بازاری کا شکار ہیں اور ملک کے صنعتی اور کاروباری طبقے کو ٹیکس میں ریلیف دینا چاہیئے تا کہ معیشت کو بحال کیا جا سکے۔ تفصیل کے مطابق برطانوی مرکزی بینک کی رپورٹ کے بعد نو منتخب برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے افراط زر کی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور معیشت کی درستگی کے لئے نیز گرتی ہوئی شرح نمو کی بحالی کے لئے نیا ٹیکس پلان جاری کیا ہے۔ وزیر خزانہ کواسی وارٹنگ نے برطانوی دارلعوام (House of Common ) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” ہم افراط زر کے نئے دور میں شرح نمو کو 2.5 فیصد کی بنیادی سطح پر لانے کے لئے نئے ٹیکس منصوبے کا اعلان کر رہے ہیں” انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی معیشت کی Trendline گر رہی ہے جسے دوبارہ گراف پر لانے کی ضرورت ہے۔
برطانوی حکومت کے مجوزہ ٹیکس منصوبے میں صنعتی اور کاروباری طبقے پر بورس جانسن دور میں عائد کردہ 25 فیصد ٹیکس میں کمی کرتے ہوئے 19 فیصد پر لانے کی تجویز دی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ اس نظرثانی شدہ ٹیکس منصوبے کے نفاذ کے بعد برطانیہ میں کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کی شرح G-20 ممالک میں سب سے کم ہو گئی ہے۔ اسکے علاوہ نئے ٹیکس منصوبے میں عوام پر عائد کردہ 1.25 فیصد آمدنی اور تنخواہوں میں سے انشورنس کی مد میں کی جانیوالی کٹوتی ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
نئے ٹیکس منصوبے میں عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کے لئے Income Tax کی بنیادی شرح کو 25 بنیادی پوائنٹس سے کم کر کے 19 بنیادی پوائنٹسپر لانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اسکے علاوہ 1 لاکھ 45 ہزار برطانوی پاؤنڈ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے پر انکم ٹیکس 45 فیصد سے کم کر کے 40 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ نئے گھروں کی خریداری پر عائد Stamp Duty میں نمایاں کمی کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ سیاحت کے شعبے پر عائد سیلز ٹیکس کو سیاحوں کو واپسی کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ بینکوں کی آمدنی پر بونس کی حد مقرر کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
لز ٹرس کی نئی حکومت کے مطابق برطانیہ ستمبر 2022ء کے آغاز سے ہی کساد بازاری کے دور میں داخل ہو چکا ہے جس سے برطانوی معیشت کو نکالنے کے لئے بنیادی شرح سود ( Key Interest Rate ) میں مرکزی بینک کو 50 سے 75 بنیادی پوائنٹس شرح سود میں اضافے کا کہا گیا ہے تا کہ افراط زر اور کساد بازاری کا مقابلہ کیا جا سکے۔ وزیر خزانہ کے مطابق اگست 2022ء میں برطانوی معیشت 0.1 فیصد سکڑ گئی ہے اور شرح نمو میں 1 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ برطانیہ میں افراط زر دوہرے ہندسے میں داخل ہو چکی ہے جسکی وجہ سے ملک کی اقتصادی اور معاشی شرح نمو بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ نئے ٹیکس منصوبے کے جاری ہونے کے بعد FTSE100 سمیت یورپی مارکیٹس ( European Markets) میں گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ لیکن بنیادی طور پر نئے ٹیکس منصوبے کا مقصد عوام اور کاروباری طبقے کو کساد بازاری اور افراط زر کے اثرات سے ریلیف دے کر ملکی معیشت کی بحالی ہے۔
اس ہفتے کے یہ تمام واقعات عالمی معاشی صورتحال میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور بظاہر دنیا کساد بازاری کے ایک طویل دور میں داخل ہو چکی ہے جس کے اثرات نہ صرف آنے والے دنوں میں نمایاں طور پر نظر آئیں گے بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کی معاشی صورتحال انتہائی سنگین ہو سکتی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button