طیب اردگان تیسری بار ترکی کے صدر منتخب. معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟

طیب اردگان مسلسل تیسری بار ترکی کے صدر منتخب یو گئے ہیں جس کے بعد ٹرکش لیرا کی قدر میں گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ عرصے کے دوران ترک صدر افراط زر (Inflation) میں بے پناہ اضافے کے باوجود شرح سود (Interest rate) میں اضافے سے انکار کرتے رہے ہیں اور ایسا کرنے پر تین بار Turkish Central Bank کے سربراہان کو انکے عہدوں سے فارغ کر دیا تھا۔

طیب اردگان کا اقتدار بائیسویں سال میں داخل

ترکی کی سپریم الیکشن کونسل نے سرکاری طور پر تصدیق کر دی ہے کہ رجب طیب اردگان 52 فیصد ووٹ حاصل کر کے مسلسل تیسری مدت کیلئے ملک کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ وہ 2002ء سے اقتدار میں ہیں اور دو بار وزیر اعظم کے طور پر خدمات سر انجام دینے کے بعد 2014ء میں انہوں نے ملک میں رائج پارلیمانی نظام حکومت کو تبدیل کر کے تمام اختیارات صدر کو منتقل کر دیئےاور اس کے بعد انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔

خیال رہے کہ 14 مئی کو ہونیوالے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں طیب اردگان کا شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور آئینی اعتبار سے درکار مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرنے پر ملکی تاریخ میں پہلی بار رن آف الیکشنز کی ضرورت پیش آئی ہے۔ انہیں کمال داروغلو سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ترکی کے یورپی یونین سے تعلقات کا جائزہ

طیب اردگان نے 1923ء میں جدید ترکی کے قیام کے بعد سے اسکے بانی مصطفی کمال اتاترک کے رائج کردہ سخت سیکولر قوانین میں کئی بنیادی تبدیلیاں کیں۔ جن میں مساجد کا قیام، حج کی سرکاری سطح پر اجازت ، ڈریس کوڈ میں تبدیلیاں اور مذہبی تعلیم و شناخت کی اجازت شامل ہیں۔ تاہم وہ اپنے آپ کو سیکولر راہنما قرار دیتے آئے ہیں۔

انکی کوششوں کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے سیکولر قوانین کی محافظ ٹرکش فوج نے 2016 ء میں پانچویں بار انکے خلاف بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ طیب اردگان نہ صرف اس عرصے میں بغاوت پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے سینکڑوں فوجی جرنیلوں اور اپوزیشن کے حامی افراد کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اپنے سیاسی مخالفین پر انتہائی شدید کریک ڈاؤن، گرفتاریوں اور یونانی کمیونٹی کی جبری ملک بدری کے بعد یورپی یونین نے ترکی کا یورپی ممالک کے اتحاد میں بطور امیدوار اسٹیٹس 2016ء میں معطل کر دیا تھا۔

ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر دونوں براعظموں میں واقع یہ ملک نیٹو کا اہم رکن ہے تاہم امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اسکے تاریخی تعلقات میں موجودہ دور حکومت کے دوران خاصا تناؤ دیکھا گیا ہے۔ یورپ ان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ گذشتہ دو عشروں سے پروان چڑھنے والی نئی ترک نسل کو سیکولر اقدار سے دور کر کے ان کی مذہبی شناخت میں اضافہ اور اسے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ طیب اردگان کے حامیوں میں 70 فیصد افراد نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے انہیں کے دور میں آنکھ کھولی۔ جبکہ 30 سال سے زائد عمر کے ترک شہریوں میں انکی مقبولیت کا گراف خاصا نیچے ہے۔

عالمی تعلقات کے ماہرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ترک قوم بنیادی طور پر یورپی تاریخ سے منسلک ہے اور انکی زندگیوں میں روائتی طور پر مذہبی عنصر نہیں تھا جسے اردگان نے متعارف کروایا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی نسل انکے خیالات کو اپنے فاؤنڈر اور عظیم راہنما مصطفی کمال اتاترک کے نظریات سے متصادم سمجھتی ہے جس کے مطابق وہ 80 سال تک زندگیاں بسر کرتے آئے ہیں۔ جبکہ اسکے مقابلے میں انکی مقبولیت اس طبقے میں زیادہ ہے جنہوں نے انکے دور میں نشوونما پائی۔

انکے دور میں ترکی کی معاشی کارکردگی کیسی رہی ؟

ابتدائی دور کی معاشی ترقی کے برعکس گذشتہ 20 برسوں کے دوران ترکی کی معاشی سمت منفی ہوئی ہے اور افراط زر (Inflation) میں 150 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا یے۔ اسکے باوجود طیب اردگان مانیٹری ٹولز کے موثر استعمال سے قاصر رہے ہیں۔ جس سے ٹرکش لیرا مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ 2003ء میں امریکی ڈالر، یورو، برطانوی پاؤنڈ اور سوئس فرانک سے زیادہ مضبوط کرنسی انکے عہد میں 25 گنا قدر کھو چکی ہے۔ جس سے عام ترک شہریوں کے معیار زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈی۔ڈبلیو کے مطابق آج سے 20 سال قبل ترک قوم ایشیائی ممالک کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے تھے اور ٹرانس کانٹینینٹل (بین البراعظمی) ملک اقتصادی اعتبار سے اتنا مضبوط تھا کہ یورپی یونین سے ہزاروں افراد ملازمت کیلئے اسکا رخ کرتے تھے۔ تاہم طیب اردگان کے دور میں سب کچھ تبدیل ہو گیا۔

انکی پالیسیوں سے نالاں یورپی سرمایہ کار پرتگال، جارجیا اور دیگر ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار میں اتنی کمی واقع ہوئی ہے کہ 2003ء میں 800 ارب ڈالرز کے فارن ایکسچینج ریزروز رکھنے والے ملک کے پاس محض 10 ارب ڈالرز غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر باقی بچے ہیں۔ جبکہ 25 ہزار سے زائد یورپی کمپنیوں میں سے 7 سو ہی اسوقت یہاں کام کر رہی ہیں۔

ترک صدر کے حامی جہاں انہیں عالمی سطح کا قدر آور راہنما قرار دیتے ہیں انکے ناقدین انہیں معاشی اعشاریوں (Financial Indicators) کے منفی منظر نامے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ روز فتح کے جشن میں خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ وہ معاشی ترقی کیلئے محنت کریں گے نیز اپنی قوم کے دیرینہ مطالبے کے پیش نظر شامی، افغانی اور پاکستانی انتہا پسند عناصر کو ملک سے نکالنے پر کام کریں گے۔

انتخابی نتائج کے معاشی مارکیٹس پر اثرات

انتخابی نتائج جاری کئے جانے کے بعد ٹرکش لیرا کی قدر میں گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکی ڈالر (USDTRY) 0.73 فیصد اضافے کے ساتھ 20.0748 پر آ گیا ہے۔

USB اور Citi سمیت عالمی معاشی ادارے ٹرکش کرنسی میں مزید گراوٹ کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button