کیا برکس ممالک مشترکہ کرنسی اور دیگر معاشی مقاصد حاصل کر پائیں گے. ؟

اس اجلاس میں غور کیا جائے گا کہ کیا نے ممالک کو اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے یا نہیں

برکس کے معاشی فورم کا اجلاس 22  اگست کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں منعقد ہونے جا رہا ہے   . برکس گروپ آف نیشنز میں روس ، برازیل ، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، جو اب اس مسئلے پر بھی غور کریں گے کہ کیا  نئے اراکین کو کو اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے یا نہیں .

اس مرتبہ فورم  کے میزبان ملک جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ اب 30 یا اس سے زیادہ ممالک گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں.

کیا برکس ممالک مشترکہ کرنسی اور دیگر معاشی مقاصد حاصل کر پائیں گے. ؟

برکس ممالک کا تعارف

 

آج سے بیس سال پہلے 2001 میں سرمایہ کاری بینک GoldMan Sachs  کے ایک ماہرِ اقتصادیات جم او نیل نے برازیل، روس، انڈیا اور چین کے لیے  BRIC  کا مخفف بنایا۔ی.  اسکے بانی ممالک کی تعداد چار تھی . دلچسپ امر یہ ہے کہ چین اپنے روایتی دوست ملک پاکستان کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتا تھا تاہم اس وقت امریکہ کے ساتھ نائن الیون کے بعد کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کے اتحادی جنرل پرویز مشرّف نے اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی .

یہ بڑے مگر درمیانی آمدنی والے ممالک تھے جن کی معیشتیں اس وقت تیزی سے ترقی کر رہی تھیں۔ انھوں نے پیشگوئی کی کہ وہ سنہ 2050 تک دنیا کی صف اول کی معیشتیں بن سکتی ہیں

سنہ 2006 میں چاروں ممالک نے برک گروپ کے باقاعدہ قیام کا  فیصلہ کیا۔ جنوبی افریقہ 2010 میں اس فورم  کا حصہ بنا، جس سے یجس سے اسکا موجودہ نام  برکس بن گیا جو کہ ابھی تک جاری ہے .

اس پلٹ فارم کے مقاصد کیا ہیں ؟

برکس کو بین الاقوامی معاشی  اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میںریفارمز  کے طریقے تلاش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک طاقتور آواز اور نمائندگی‘ کو یقینی بنایا جا سکے۔

2014 میں برکس ممالک نے 250 ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ نیو ڈیولپمنٹ بینک یعنی NBD قائم کیا تاکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں  کو ترقی کے لیے فنڈز فراہم کے جا سکیں ۔ جو ممالک اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں جیسے مصر اور متحدہ عرب امارات نے NBD میں شمولیت اختیار کی ہے۔

برکس ممالک کے درمیان  کتنے اختلافات موجود ہیں اور کیا یہ اکٹھے چل سکتے ہیں.؟

 

روس برکس ممالک کے   اپنے متعلقہ خطے میں ایک بڑا ملک ہے، تاہم چین ان میں سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے .

رکس کے ذریعے چین خود کو گلوبل ساؤتھ کی ایک سرکردہ آواز کے طور پر ظاہر کر رہا ہے، اور موجودہ بین الاقوامی نظام میں اصلاحات یاتبدیلیوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘ تاہم   Asia Pacific Region  میں بھارت فورم کے موجودہ آرگنائزر  چین کا حریف ہے۔ اس کے چین کے ساتھ طویل عرصے سے سرحدی تنازعات ہیں اور وہ خطے میں اسکے  مفادات  کی توسیع کو روکنے کے لیے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا اتحادی بن کر سامنے آیا ہے.

ابھی تک برکس ممالک ڈالر کو ترک کرنے کی پالیسی پر بھی متفق نہیں ہو سکے . سب سے زیادہ کشمکش کا شکار بھارت ہے کیونکہ نہ تو وہ روس کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی امریکی کی اسٹریٹجک پارٹنرشپ. وہ امریکی نیو ورلڈ آرڈر میں جنوبی اور مشرقی ایشیا میں واشنگٹن کیلئے وہی اہمیت رکھتا ہے جو کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل.

یوکرین جنگ کے بعد کی صورتحال.

روسی تیل کی درآمد پر مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد انڈیا اور چین اس کے سب سے بڑے گاہک بن گئے ہیں۔ روس نے فروری 2023 میں چین اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کی ہیں۔ تاہم برکس کے دیگر ارکان نہیں چاہتے کہ یہ واضح طور پر مغرب مخالف معاہدہ بن جائے۔

معاشی ماہرن  کے مطابق، برازیل ، جنوبی افریقہ اور انڈیا منقسم دنیا نہیں چاہتے۔ ان کے مطابق ’مغرب کی مخالفت انکی پنپتی ہوئی معیشتوں کیلئے ہرگز سود مند نہیں ہے ، تاہم روس اور چین اسے استعمال کرتے ہوۓ. یورپ اور امریکہ کو نہ صرف سبق سکھانا چاہتے ہیں بلکہ ڈالر کے مقابلے میں برکس کی مشترکہ کرنسی بھی  لانچ کرنا چاہتے ہیں. جس کے بیک اینڈ پر امریکی ڈالر کی جگہ گولڈ اور دیگر قیمتی دھاتیں استمعال ہوں گی .

مجوزہ کرنسی کب لانچ کی جاییگی ابھی تک یہ غیر واضح ہے . لیکن چین، روس اور امریکہ کے درمیان پائی جانیوالی Geo- Political  Tensions کےکودیکھتے ہوے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت جلد یہ حقیقت کا روپ دھارلےگا. 

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button