Apple کا جھٹکا، India کا بکھرتا ہوا Manufacturing Dream – معاشی خواب یا غیر یقینی حقیقت؟
A sudden tariff twist pulls the rug under Apple’s India play as China regains its manufacturing edge.

2024 میں جیسے ہی Apple نے India میں بڑے پیمانے پر iPhone Production کا اعلان کیا، دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی نظریں نئی دہلی پر جم گئیں۔ اسے ایک تاریخی لمحہ کہا جا رہا تھا، ایک ایسا موڑ جہاں انڈیا آخرکار چین کے سائے سے نکل کر عالمی Manufacturing Hub بننے جا رہا تھا۔ مگر یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
US-China Trade Deal کا معاشی جھٹکا
سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی حیران کن US-China Trade Deal نے منظرنامہ ہی بدل دیا۔ امریکہ نے چین پر لگے 145 فیصد Tariffs کو گھٹا کر 30 فیصد کر دیا. جبکہ انڈیا پر موجودہ 27 فیصد Import Tariff برقرار رہے۔ اس کے نتیجے میں چین دوبارہ سرمایہ کاروں کے لیے ایک Ideal Manufacturing Zone بن گیا اور انڈیا کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچا۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب Apple جیسے Tech Giants انڈیا میں Factory Relocation کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مگر اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے: کیا India اب بھی سرمایہ کاری کے قابل ہے؟
Apple کا خاموش یو ٹرن
ذرائع کے مطابق، Apple کے CEO ٹِم کُک کو سابق امریکی صدر Donald Trump نے ذاتی طور پر مشورہ دیا. کہ وہ انڈیا میں Factory Setup نہ کریں. کیونکہ انڈیا "دنیا کے سب سے بڑے Tariff Collectors” میں سے ہے۔ یہ بیان نہ صرف انڈیا کی تجارتی پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے. بلکہ سرمایہ کاروں کو بھی متذبذب کرتا ہے۔
عالمی سرمایہ کاروں کا بھارت سے اعتماد اٹھنے لگا
رواں ماہ Indo-Pak War کے بعد دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے بھارت میں اپنی سرمایہ کاری سے متعلق شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ جنگ میں انڈیا کی Defensive Capabilities کی واضح کمزوری اور پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی نے عالمی سطح پر یہ تاثر پیدا کیا ہے. کہ بھارت اب ایک Instable Investment Zone بنتا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی حلقے جیسے کہ London, Frankfurt، اور Tokyo کے سرمایہ کار اس وقت بھارت کی معاشی پالیسیوں اور Corporate Commitments کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ خاص طور پر، Risk Analysts یہ سوال اٹھا رہے ہیں. کہ اگر خطے میں ایٹمی کشیدگی دوبارہ بڑھی، تو بھارت کی Financial Guarantees اور Foreign Direct Investment (FDI) کتنی محفوظ رہیں گی؟
اس وقت عالمی سرمایہ کار New Delhi کے وعدوں کو ایک ایسے Nuclear Flashpoint کے تناظر میں جانچ رہے ہیں. جہاں کسی بھی وقت جغرافیائی صورتحال شدت اختیار کر سکتی ہے۔ بھارت کی Geoeconomic Ambitions اب پاکستان جیسی Nuclear Power کے سامنے دباؤ کا شکار نظر آ رہی ہیں. جس سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
Value-Added Manufacturing کا بحران
اجے سریواستو، جو Global Trade Research Initiative کے سربراہ ہیں، کے مطابق، اس معاہدے نے ان کمپنیوں کی ہمت توڑ دی ہے جو China-Plus-One Strategy کے تحت India کا رخ کر رہی تھیں۔ خاص طور پر High-End Manufacturing جیسے Semiconductors, Mobile Components، اور Consumer Electronics اب واپس چین کا رخ کر سکتے ہیں۔
کاغذوں میں PLI Scheme، زمینی حقیقت صفر
India کی Production Linked Incentive (PLI) Scheme کئی دہائیوں سے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی Manufacturing GDP اب بھی 15 فیصد سے نیچے ہے. جبکہ ویتنام اور ملائشیا جیسے ممالک نہ صرف تیز ترقی کر رہے ہیں. بلکہ Free Trade Agreements کے ذریعے FDI کو بھی اپنی طرف راغب ہیں۔
Supply Chain میں چین کا غلبہ برقرار
انڈیا میں اگرچہ iPhones کی Assembling ہو رہی ہے. مگر اصل کمائی اب بھی چین کے ہاتھ میں ہے. جہاں سے Key Components آتے ہیں۔ انڈیا کو ایک Self-Reliant Supply Chain بنانے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہیں۔ اور جب تک Raw Materials اور Chips چین سے آتے رہیں گے. India صرف ایک "سستے مزدوروں کی مارکیٹ” ہی رہے گا۔
ماہرین اس بات پر بھی تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ اب چینی کمپنیاں انڈیا کو ایک Transit Hub کے طور پر استعمال کر کے، امریکی Tariff Restrictions سے بچنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو انڈیا کو WTO Compliance Risks، Trade Investigations، اور Reputational Damage کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اگرچہ انڈیا اب بھی ترقی کی خواہاں معیشت ہے. مگر حالیہ Indo-Pak War نے ثابت کیا ہے کہ Strategic Insecurity اور Nuclear Tensions سرمایہ کاری کے فیصلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب تک انڈیا اپنے Defensive Gaps کو پورا اور Geopolitical Diplomacy میں توازن پیدا نہیں کرتا، عالمی سرمایہ کار ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہوں گے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔