روسی تیل کی چینی اسٹریٹیجک زخائر کے لئے خریداری اور نیا معاشی بلاک

ریسرچ آرٹیکل( تحقیق و تحریر: عدیل خالد) ۔۔ چاہے بین الاقوامی منظرنامے پر کچھ بھی ہو رہا ہو اور کیسی ہی تبدیلیاں بین الاقوامی سیاسی و معاشی حالات میں رونما ہو رہی ہوں۔ روس اور چین کی دوستی کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ دونوں ممالک کی دوستی ہر قسم کی بین الاقوامی سیاست سے بلند ہے۔ صرف دونوں ممالک کی حکومتیں ہی نہیں بلکہ عوام بھی ایک دوسرے سے دلی اور جزباتی لگاو رکھتے ہیں۔ شائد اسکی ایک وجہ تو کارل مارکس اور ماو کے نظریات میں ہم آہنگی کا ہونا ہے دوسرا انکے سماجی نظام میں سوشلزم کی گہری جڑیں ہیں۔ اگرچہ سوویت یونین  کے زوال کے بعد کمیونزم اور سوشلزم کو روس سے رخصت ہوئے تقریبا تین عشرے گزر چکے ہیں ہیں لیکن موجودہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن جو کہ کسی زمانے میں سوویت خفیہ ایجنس کے۔جی۔بی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اب بھی روسی عظمت کے گمگشتہ نشان تلاش کر رہے ہیں۔ آج بھی روس اپنی ہائبرڈ جمہوریت کے ساتھ دنیا کے ایک تہائی رقبے پر محیط ہے ۔ اور آج بھی اپنا ماضی بھلا نہیں پا رہا ۔ روسی عوام کی اکثریت آج بھی چین کو اپنا سب سے قریبی اور بااعتماد دوست سمجھتی ہے۔ یوکرائن جنگ کے بعد بننے والے حالات کے بعد جب ساری مغربی دنیا نے روس کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور چین سے لے کر الاسکا کے پانیوں تک پھیلے ہوئے براعظم آسٹریلیا سے اڑھائی گنا بڑے وسیع و عریض ملک جسے روس کہا جاتا ہے پر ہر قسم کی بھولی بسری پابندیاں ایسے لگائیں کہ شائد دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونیوالی سرد جنگ کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان حالات میں چین ہی وہ واحد ملک ہے جو روسی معیشت کو اتنی بدترین پابندیوں کے باوجود بھی نہ تو تنہا ہونے دے رہا ہے اور نہ ہی باہمی تجارت کے حجم کو نیچے آنے دے رہا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب ایسا لگ رہا تھا کہ روسی معاشی نظام مفلوج ہو جائے گا لیکن چین  ہمیشہ روس کی مدد کو پہنچ گیا۔ امریکہ اور یورپ نے روس کو عالمی ترسیل زر سوئفٹ کے نظام سے نکالا تو چین نے روسی تجارت کو بچانے کے لئے چائینیز یونین میں روس کے ہر معاشی ادارے کے ترسیل زر کے پیغامات شامل کر دیئے۔ چند روز قبل چینی حکمران جماعت کیمونسٹ پارٹی کے ہنگامی اجلاس میں جو کہ بلایا تو عالمی معیشت پر غور کرنے کے لئے گیا تھا لیکن اس میں بھی چینی صدر اور چینی کیمونسٹ پارٹی کے موجودہ سربراہ ژی جن پنگ نے یورپی اقوام کو انتباہ کیا کہ روس کے ساتھ اپنے اختلافات کو دشمنی میں نہ بدلیں ورنہ عالمی معاشی بحران کساد بازاری کی شکل اختیار کر چائے گا اور کئی دہائیوں تک دنیا کو اپنے شکنجے میں جھکڑے رکھے گا۔ اسکے بعد اب روسی تیل پر کئی قسم کی پابندیوں کے بعد چین نے روس سے اپنے توانائی کے سٹریٹیجک زخائر کے لئے کئی بلیئن بیرل تیل خریدنے کو فیصلہ کیا جس کے بعد دونوں ممالک کی گیس کمپنیز کی بجائے اعلی ترین قیادت کی سطح پر تمام معاملات طے کیے گئے اور روسی حکومت کے زرائع کے مطابق روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے چینی سربراہ ژی جن پنگ کو روسی عوام کا سب سے قابل احترام اور دلوں میں بسنے والا راہنما قرار دیتے ہوئے چین کو عالمی مارکیٹ سے نصف قیمت پر تیل سپلائی کرنے کا اعلان کیا ۔ بلاشبہ اگر کسی عالمی فیصلے میں روس اور چین شامل نہ ہوں تو وہ عملی طور پر بے اثر ہو جاتا ہے کیونکہ ان میں سے ایک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور دوسرا رقبے کے اعتبار سے پورا براعظم ہے۔ یہ چینی مدد ہی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں کے بعد بھی روسی معیشت پر تو کوئی فرق نہیں پڑا، بلکہ اس کے برعکس پابندیاں عائد کرنیوالوں کی اپنی معیشتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ اب یہ ایک کھلا بھید ہے کہ چین روس کے ہمراہ دنیا کیلئے ایک نیا اور متبادل معاشی بلاک تشکیل دے چکے ہیں جسکا اگرچہ باضابطہ اعلان نہیں ہوا لیکن عالمی معیشت میں پوری طرح سے موثر اور متحرک ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button