پابندیوں کے باوجود روسی معیشت اور کرنسی کو مستحکم رکھنے والی ایلویرا نبیولینا

ریسرچ آرٹیکل( تحقیق و تحریر : عدیل خالد)۔ ۔۔ یوکرائن پر روسی حملے کے بعد کونسی ایسی پابندی تھی جو معاشی دنیا میں وجود رکھتی ہو لیکن روس پر نہ لگائی گئی ہو ؟۔ لیکن اس کے باوجود روسی کرنسی روبل ہے کہ اس کی قدر اب تک 35 فیصد بڑھ چکی ہے ۔ ایسے وقت میں جب پوری دنیا بشمول یورپ اور امریکہ کے عالمی معاشی بحران اور افراط زر نے تمام بین الاقوامی کرنسیوں کی حالت غیر کی ہوئی ہے، انتہا درجے کی معاشی پابندیوں کے شکار روس کی پھیلتی ہوئی معیشت اور روبل کی بڑھتی ہوئی قدر نے عالمی معاشی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جس ملک پر اس سے نصف پابندیاں بھی عائد کر دی جائیں اسکی کرنسی بےوقعت ہو کر رہ جاتی ہے لیکن روس کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ روس پر پابندیوں کی شروعات ہوئیں تو روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے روسی سینٹرل بینک کی سربراہ ایلویرا نبیولینا کو روس کی معاشی کونسل کی سربراہ کے طور پر تعینات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب دنیا ہماری زہانت، حکمت عملی  وقار  اور خوبصورتی کو دیکھے گی۔ جسے میں زمہ داری دے رہا ہوں وہ اکیلی پوری دنیا کی معیشت کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ چنانچہ سوئفٹ بینکنگ سے اخراج سے پہلے ہی ایلویرا نبیولینا نے روس کے ترسیل زر کے نظام کو چائینیز یونین کے ساتھ منسلک کر دیا تھا جس کے نتیجے میں سوئفٹ بینکنگ کے عالمی ترسیل زر کے نظام سے روسی بینکوں کے اخراج کا روسی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اس کے بعد ایلویرا نے روسی گیس اور تیل کے معاہدے ازسرنو کرنے کا اعلان کر دیا ۔ یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ حیران کر دینے والا پہلو تو روسی سنٹرل بینک اور معاشی کونسل کی سربراہ کا یہ اعلان تھا کہ اب سے روس اپنی تمام وصولیاں اور ادائیگیاں روسی کرنسی روبل میں کرے گا ۔ جو ایسا نہیں کریں گے ان کے ساتھ تمام لین دین بند کر دیا جائے گا۔ یورپی یونین کے توانائی کے شعبے کا 80 فیصد دارومدار روسی تیل و گیس پر ہے  اور بعض ممالک تو بجلی بھی روس سے درآمد کرتے ہیں۔ چنانچہ جس بھی یورپی ملک نے روبل میں ادائیگی سے انکار کیا محترمہ ایلویرا نبیولینا کے احکامات پر اس کی انرجی سپلائی بند کر دی گئی۔ جس کے جواب میں یورپ نے مزید پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی تو روس کی آئرن لیڈی نے یورپ کو دی گئی تمام مراعات واپس لینے کا اعلان کر دیا ۔  اس کے بعد پورے یورپی کمیشن کو روس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اسوقت شینجین زون میں صورتحال یہ ہے کہ روسی روبل کی طلب میں 200 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اسکی قدر میں آج ہی 10 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکی سیکرٹری خزانہ جینیٹ ییلین نے بھی روسی معاشی کونسل کی سربراہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اتنے مضبوط اعصاب کی خاتون روسی معیشت کو نہ سنبھالتی تو اب تک ولادی میر پیوٹن گھٹنے ٹیک چکے ہوتے۔ پوری عالمی معیشت کو زیر و زبر کرنے والی ایلویرا بظاہر اتنی ہی پرسکون نظر آ رہی ہیں۔ ایلویرا نیبیولینا جو کہ پچھلے دس سال سے روسی معیشت اور سنٹرل بینک کی سربراہ ہیں اپنی غیر معمولی معاشی اور سٹریٹیجک پلاننگ کے لئے مشہور ہیں انکا تعلق روس کے مسلم خاندان سے یے۔ اور انہیں ولادی میر پیوٹن کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ وہ بروقت اور فوری فیصلے کرنیکی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اسکی واضح مثال یہ ہے کہ پچھلے دنوں یورپی یونین نے روس کے سونے اور چاندی کے ریزروز کو منجمد کر دیا تھا تا کہ روبل کو کمزور کیا جا سکے۔ اس کے چند گھنٹوں کے اندر ایلویرا کے احکامات پر روس کے ڈیجیٹل کرنسی کے تمام اثاثہ جات جو کہ 151 ٹریلیئن ڈالرز سے زائد تھے کو ڈیجیٹلی فروخت کر کے سونے کے محفوظ اثاثہ جات میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر آنیوالے اس پراثر ردعمل نے یورپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ان کے بارے میں چینی کیمونسٹ پارٹی کے سربراہ اور چین کے موجودہ صدر ژی جن پنگ  نے کہا تھا کہ ” اگر ایلویرا روسی معیشت کو متحرک انداز میں سنبھال رہی ہیں تو ولادی میر پیوٹن سمیت تمام روس پرسکون انداز میں سوتا ہے۔ روسی سنٹرل بینک اور معیشت کی سربراہ نے مغرب کی نیندیں اڑا دی ہیں ”  عالمی معاشی ماہرین کے خیال میں روسی سنٹرل بینک کی سربراہ کی طرف سے نافذ کی گئی روبل پالیسی کے نتیجے میں انہوں نے مغرب کو کسی ایکشن کا موقع دیئے بغیر چند گھنٹوں میں کھربوں ڈالر کے بٹ کوائن اور یورو سمیت باقی کرنسیز فروخت کر کے عالمی معیشت کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ عالمی معیشت کے اسٹریٹجسٹ یوری پوپوف کے مطابق ” روس اور باقی دنیا کی معیشتوں کے درمیان فرق روسی سینٹرل بینک اور معاشی کونسل کی سربراہ ہیں جن کی وجہ سے روسی معیشت مستحکم ہے اور باقی دنیا عدم توازن کی شکار”

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button