پاکستان کا معاشی بحران کتنا سنگین ہے ؟

( تحریر: عدیل خالد): پاکستان اس وقت کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہے ایک طرف سیاسی بےیقینی اور عدم استحکام ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔ دوسری طرف معاشی عدم استحکام ہے جو کہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب قریب قریب یہ بند گلی میں داخل ہو چکا ہے ۔ شائد اس وقت اگر اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے دوست ممالک میں سے کوئی اس کی مدد کو نہ آیا تو پاکستان کا معاشی بحران سری لنکا جیسی ہیئت اختیار کر سکتا ہے۔ تیزی سے بےقدری کی نئی نئی جہتیں دریافت کرتی پاکستانی کرنسی۔ روز نیچے گرتی اسٹاک مارکیٹ اور انتہا کا افراط زر ! کچھ بھی تو ایسا نہیں جسے کوئی شعور رکھنے والا انسان ٹھیک کہہ سکے۔ ان سب کی جڑیں سیاسی عدم استحکام میں ہیں ۔ آج سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ان کی پٹاری میں موجودہ معاشی بحران کا حل تو ہے لیکن وہ اس حکومت کو نہیں بتائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے انکی حکومت گرائی تھی ۔ ان کی عمرو عیار کی زنبیل البتہ  نگرانوں کے لئے کھل سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے علاوہ ایک اور وجہ ہے جسے اسوقت کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا حالانکہ ہمارے مشرقی ہمسائے سمیت سبھی باقی ساری دنیا ہی سمجھ چکی ہے۔ اور وہ ہے یوکرائن جنگ کے بعد پیدا ہونے والا عالمی معاشی عدم توازن ۔۔ یہ ہے وہ دیمک جو کہ دنیا کی تمام بڑی معیشتوں کو تیزی سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ چین سے لے آسٹریلیا تک اور یورپی یونین سے لے کر امریکہ سبھی معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار اور پریشان ہیں۔ ہم تو ویسے بھی کسی گنتی میں نہیں آتے اور معیشت ہماری ترجیحات میں کہیں بعد میں آتی ہے۔ ہماری ساری سیاسی قیادت کو امید ہے کہ ہم خود فکر کریں یا نہ کریں، باقی دنیا جو ہے ہمارا غم کھانے کے لئے۔ خود ہی ہمارے لئے اقتصادی راستے نکالے گی۔۔ تیسری اہم وجہ تجارتی خسارہ ہے جو کہ 30 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ اسے پورا کرنے کے لئے ہمیں قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اپنی برآمدات ہم نے بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ زرعی صنعتی دونوں شعبوں میں ہی کوئی  بھی سائنسی اپروچ ہم پر حرام ہے ۔ خان صاحب نے بابا بلھے شاہ پر تو پی ایچ ڈی شروع کروا دی تھی اور بہت سے زرخیز ذہن اس مضمون کے دو تین سمیسٹرز پڑھ بھی چکے ہیں لیکن ہمارا زرعی شعبہ سو سال پیچھے ہی دھرا ہوا ہے جسے کسی نے بھی توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے  معاشی مدد کی امیدیں تھیں لیکن انکے اپنے مسائل ہیں ویسے بھی عالمی معاشی بحران میں اپنی اپنی اقتصادی لجنگ خود ہی لڑنا پڑتی ہے ۔ چین سے کھل کر مدد مانگی گئی لیکن انہوں نے ڈالر دینے کی بجائے سائنو ویک کی فیکٹری پاکستان میں لگانے کا اعلان کر دیا تا کہ پہلے پاکستانی عوام کی صحت کے مسائل حل ہو سکیں۔ معیشت خودبخود ٹھیک ہو جائے گی ۔ ویسے بھی پاکستان کی معیشت دراصل کرکٹ کا وہ میچ بن چکا ہے جس میں ہر دو اوورز کے بعد بارش شروع ہو جاتی ہے اور ایمپائر وکٹیں اکھاڑ کر لے جاتا ہے۔ جب ہماری ساری قوم ہی اپنی معیشت کے لئے سنجیدہ نہیں تو گرتی ہوئی دیوار کو باقی دنیا کیوں بچائے ؟ اسوقت ایسا لگ رہا ہے کہ ساری قوم ” سیاسی” ہو چکی ہے اور معیشت بےچاری کسی کونے کھدرے میں سکڑی بیٹھی ہے۔ لیکن کسی کو بھی ادراک نہیں ہے کہ اس سے دو قدم آگے اگر یہ بحران بڑھا تو پاکستان کساد بازاری کے کس دور میں داخل ہو جائے گا ؟۔ لیکن پاکستانی مقتدر حلقے معیشت کے علاوہ ہر معاملے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقل بنیادوں پر معاشی سمت کا تعین کریں۔ کیونکہ اگر یہ دھرتی سلامت رہے گی تو سب کھیل چلتے رہیں گے ورنہ اب کی بار ایمپائر عالمی ادارے ہیں  وکٹیں اکھاڑنے میں بالکل دیر نہیں کریں گے۔ جب ملک معاشی لحاظ سے دیوالیہ ہو جائیں تو چاہے جتنے بھی ایٹمی ہتھیار ہوں اور جتنی بھی گلی محلے کے لڑکوں بالوں کی سطح کی جگتیں اور شعلہ بیانی ہو آپکو بچا نہیں سکتے۔ آج کی جنگیں معاشی میدانوں میں لڑی جاتی ہیں۔ وطن اور دھرتی سلامت رہیں اور باقی رہی سیاست وہ انہیں کے وجود سے ہے اور اسکی بقاء رہی تو چلتی ہی رہے گی۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button