چینی معیشت میں Deflation , عالمی مارکیٹس پر کیا اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

کئی عشروں میں پہلی بار چینی کنزیومر پرائس انڈیکس منفی آنے سے عالمی معیشت میں ہلچل

چینی معیشت کو موجودہ کوارٹر میں ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے۔ کئی عشروں کے بعد پہلی بار ملک تفریط زر یعنی Deflation کا شکار ہوا ہے۔ درحقیقت دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار یہ اصطلاح سنی گئی ہے۔

چینی معیشت میں معیار سے کم قیمتیں ؟

گذشتہ ہفتے Chinese CPI Report نے عالمی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ملک میں اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہیں۔ بتاتے چلیں کہ یہ ایسے حالات میں ہوا جب دنیا بھر میں Headline Inflation کساد بازاری (Recession) میں تبدیل ہو رہی ہے۔

چینی معیشت میں Deflation , عالمی مارکیٹس پر کیا اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں چین پر مارکیٹ میں طلب (Demand) بڑھانے اور استحکام رسد لانے کیلئے دباؤ ہے۔ اس سے قبل اگست 2023ء کی ٹریڈ رہورٹ بھی منفی تھی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہ Covid19 کی وباء کے بعد کھلنے والی دنیا کی دوسری بڑی معیشت اس رفتار سے اپنے اہداف حاصل نہیں کر رہی جسکی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔

تفریط زر کیا ہوتی ہے اور یہ کیسے خطرناک ہے۔ ؟

تفریط زر یعنی Deflation ایسی صورتحال کو کہتے ہیں جب مارکیٹ میں اشیاء کی طلب کم ہو رہی ہو اور کرنسی کی قدر میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ کمیاب بھی ہونا شروع ہو جائے۔ ایک ایسا ملک جو کہ دنیا بھر کو رسد فراہم کرتا ہو۔ جب سستی اشیاء عالمی منڈی میں بیچے گا تو جاپان سے لے کر امریکہ تک پورے گلوب پر لیکوئیڈٹی یعنی کرنسی کی سرکولیشن گھٹنا شروع ہو جائے گی۔

یہ افراط زر سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ سخت Monetary Policy سے Inflation کنٹرول ہو جاتی ہے۔ لیکن اسکے برعکس Deflation کنٹرول کرنے کے لئے مارکیٹ کا پورا میکانزم تبدیل کرنا پڑتا ہے جو کہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت کن چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے ؟

2019ء میں Covid کی وباء سے نمٹنے کیلئے چین نے انتہائی سخت سماجی اور معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور عالمی معیشت کو چلانے والا چینی صنعتی پہیہ رک گیا تھا۔ 2021-22 ء میں دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنی معیشتوں کو کھولنا شروع کر دیا۔ لیکن بیجنگ کی زیرو کووڈ پالیسی جاری رہی اور عالمی سپلائی چین تعطل کی شکار ہو گئی۔

چند ماہ قبل ملک میں غربت کے باعث ہونیوالے مظاہروں کے بعد ژی جنگ پنگ نے مرحلہ وار پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن ملک کی مقامی حکومتیں قرضوں میں ڈوبی ہوئی پابندیوں کے منفی اثرات کی عکس بندی کر رہی تھیں۔ 2008ء میں دنیا کو کساد بازاری سے بچانے والا مسیحا 2023ء میں اہنی معاشی سست روی سے اسے بحران کا شکار کر رہا ہے۔

امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کا رویہ

یہ صورتحال امریکہ اور یورپ کیلئے بھی ناقابل قبول ہے جو کچھ عرصہ قبل تائیوان کے مسئلے کو لے کر چین پر پابندیاں عائد کرنا چاہتے تھے۔ گرتی ہوئے قیمتوں کی وجہ سے Growth Rate جیسے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔ قیمتوں کو بڑھانے کیلئے حکومتی اخراجات میں اضافہ اور ٹیکسز میں کمی ہر مشتمل ایک پیکج متعارف کروانس پڑتا ہے جس کے لئے شائد چین تیار نہیں ہے۔

مغربی ممالک اسے Geo-Political Tensions کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں بیجنگ انتظامیہ یوکرائن پر روسی حملے کے بعد دنیا کو سبق سکھانا چاہتی ہے۔ تاہم خود صدر جو بائیڈن اعتراف کرتے ہیں کہ چین کے بغیر عالمی معیشت کو مستحکم اور کساد بازاری کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل چین کو اہنا دشم  قرقف دینے والے صد اب اس کے ساتھ صحتمندانہ مقابلے کی باتین کر رہے ہیں اور اسے دنیا کی معاشی حقیقت قرار دے رہے ہیں۔

چینی مرکزی بینک نے آج اہنے جاری کردہ اعلان میں کہا ہے کہ جولائی کے CPI میں کمی کے بعد رواں ماہ سے قیمتیں بڑھنا شروع ہو جائیں گی جس سے معیشت مستحکم ہو جائے گی۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button