نیورالنک کو انسانی دماغ پر تجربات کی اجازت، TESLA کی اسٹاک ویلیو میں اضافہ

نیورالنک کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA)  کی طرف سے انسانی دماغ پر تجربات کی اجازت مل گئی یے۔ جس کے بعد TESLA کی اسٹاک ویلیو میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ ایلون مسک ایک طویل عرصے سے ایک برین چپ (Brain Chip) کے ذریعے انسانی دماغ کو کمپیوٹر کے ساتھ جوڑنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

 

نیورالنک کیا ہے اور وہ انسانی دماغ پر تجربات کیوں کرنا چاہتی ہے ؟

ٹیسلا، اسپیس ایکس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کے مالک , دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک یوں تو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں Space X نے ایک اہم سنگ میل عالمی خلائی اسٹیشن پر تحقیقاتی مشن کی لینڈنگ کی صورت میں عبور کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ChatGPT کی صورت میں علمی دنیا کو آرٹیفیشل انٹیلی جینس (Artificial Intelligence) کے ساتھ منسلک ہونے کا پلیٹ فارم بھی فراہم کر چکے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں ایک بڑے سائنسی انقلاب کیلئے انکی جستجو یہیں ختم نہیں ہوئی۔

انکے سائنٹفک ریسرچ ادارے نیورالنک (NeuraLink) نے ایک ایسی Micro Processing Chip تیار کر لی ہے جو کہ نہ صرف انسانی دماغ کو کمپیوٹر کے ساتھ Connect کرنے کے قابل ہے بلکہ ذہن کی آخری تہہ میں موجود سوچ کی لہروں کو Decode کر کے انفارمیشن میں بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ جی ہاں۔ پیش خدمت ہے اکیسویں صدی کے سائنسی انقلاب کا ناقابل یقین ثبوت۔

نیورالنک کا دعوی ہے کہ انسانی دماغ کو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی مدد سے ایسے سسٹم میں منتقل کر دیا جائے گا جو اسکی سوچ اور ذہانت کو روبوٹ میں شفٹ کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر سکتا ہے۔ یعنی آپ تصور کر سکتے ہیں کہ عظیم سائنسدان سٹیفن ہائکنگ کی ذہانت اور اپروچ کو امر کر کے اگر 25 یا تیس روبوٹس میں منتقل کر دیا جائے یا شائد ان سے بھی زیادہ تو معاشرے میں کس حد تک جدت آ سکتی ہے۔ شائد آج سے دو عشرے قبل ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن آج یہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔

کمپنی کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا مکمل رخ ایسا ہو گا کہ آنیوالے وقت میں انسانی دماغ موبائل فونز کے بغیر بھی ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے قابل ہوں گے

لیکن یہ پہلو 2035ء کے بعد ممکن ہو پائے گا۔ تاہم دماغ سے کمپیوٹر یا روبوٹ کا لنک 2024ء میں شروع کر دیا جائے گا۔

برین چپ بنیادی طور پر کیسے کام کرے گی ؟

ایلون مسک کے مطابق یہ برین چپ 1024 الیکٹروڈز (Electrodes) کے ساتھ منسلک اور  انسانی بال کی طرح باریک ہو گی۔ اسے ایک بیٹری کے ساتھ مربوط کیا جائے گا۔ وائرلیس ہونے کی وجہ سے جس انسان کے دماغ میں اسے داخل کیا جائے گا اسے محسوس بھی نہیں ہو گا کہ اسکی سوچ اور دماغی لہریں بیک وقت کئی سپر کمپیوٹرز پر پڑھی جا رہی ہیں

۔اس سوچ کے منبع یعنی تحت الشعور سے جنم لینے والی لہریں اس انداز میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے حامل نظام میں داخل کی جائیں گی کہ وہ ہمیشہ زندہ رہ سکیں گی  اور اسی انداز میں کام جاری رکھیں گی جیسے وہ اپنے حقیقی مالک کے جسم میں کر رہی تھی ۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری روح کسی روبوٹ میں محفوظ ہونے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔

اسکے طبی مضمرات کیا ہو سکتے ہیں ؟

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس عمل کے تجربات حالیہ عرصے میں بندروں اور دیگر جانوروں پر  کامیابی سے مکمل کئے جا چکے ہیں تاہم امریکی حکومت سے اجازت ملنے  کے بعد انسانی ذہن پر  اسکے اثرات کا تعین کیا جا سکے گا۔ تاہم FDA کی طرف سے سگنل ملنے کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ طریقہ کار محفوظ اور سائیڈ ایفیکٹس سے پاک یے۔ عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ سائنسی دنیا کا حیرت انگیز انقلاب ہے۔ تاہم اسکے منفی نتائج طبی سے زیادہ اخلاقی ہیں۔

ادارے کے مطابق انسانی دماغ کی پیچیدہ تہوں تک پہنچنے سے کئی دماغی اور نفسیاتی امراض کا علاج بھی ممکن ہو سکے گا۔ خاص طور پر مرگی،برین ہیمبرج اور فالج کا۔ ان کے علاوہ دیگر بیماریوں کا تعلق بھی ہمارے دماغ کے مختلف حصوں سے ہوتا ہے کیونکہ ذہن جسم کا کنٹرولر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سانس لینے اور پلک جھپکنے کیلئے بھی انسانی دماغ کے عصبی خلیے ہی کام کرتے ہیں۔

نیورالنک کے ترجمان نے  کہا ہے کہ اس طریقے سے بتدریج منفی سوچ کو ختم یا محدود بھی کیا جا سکتا ہے جس سے انسانی معاشرہ جرائم سے پاک ہونا ممکن ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان تمام دعووں پر FDA نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اس عمل کے محفوظ طریقہ کار سے مطمئن ہوئے ہیں اسی لئے انہوں نے ایلون مسک کو اجازت نامہ تھما دیا ہے۔

معاشرتی زندگی کس حد تک تبدیل یو جائے گی۔

نیورالنک کے مطابق اس تحقیق اور ٹیکنالوجی سے پیدائشی طور پر اندھے پن سے لے کر فالج تک کا علاج ممکن ہے جو کہ چند سالوں میں دنیا کے سامنے آ چائے گا۔ اس کے علاوہ مرتے ہوئے سائنسدانوں اور ذہین ترین افراد کی سوچ کو زندہ رکھا جا سکے گا جس سے کرہ ارض پر بسنے والی تمام اقوام یکساں طور پر ایڈوانٹیج حاصل کر سکیں گی اور یہ اتنا عام ہونیوالا ہے کہ 2030 تک بلیو ٹوتھ کے ذریعے موبائل فونز ہر کام کیلیے بھی اسکی ایپس دستیاب ہوں گی۔

کمپنی کے مطابق اپاہج افراد بھی زندگی کے ان پہلوؤں سے مستفید ہو سکیں گے جن سے وہ اب تک محروم رہے ہیں۔ تاہم اسے تمام شعبہ ہائے زندگی میں لاگو کرنے کیلئے کئی سال لگ سکتے ہیں۔

 

انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کے اعتراضات

انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے کئی تحفظات رکھتی ہیں جن میں سے سرفہرست یہ ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد تنظیموں نے استعمال کرنا شروع کر دی تو مہذب دنیا کا جینا محال ہو سکتا ہے۔ اور ذہین افراد کو اغواء کر کے انکے دماغ انسانیت کے خلاف بھی استعمال کئے جانے کا بھی احتمال ہے۔۔

اسکے علاوہ انسانی سوچ کا کمرشل استعمال کئی اخلاقی برائیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ انکے خیال میں یہ کلوننگ کی طرح Human Commercialization کا سبب بن سکتا ہے۔  لیکن دوسری طرف نیورالنک نے ایسے تمام اعتراضات کو مسترد کر دیا ہے۔ اسکے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ اسے صرف انسانیت کی بقاء کیلئے استعمال کیا جائے گا اور یہ ٹیکنالوجی تجارتی منڈیوں کیلئے ناقابل رسائی ہو گی۔

اس حوالے سے ایلون مسک نے رائٹرز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ تجربات مکمل ہونے کے بعد اسکا میکانزم اور پروسیجر اقوام متحدہ کی تنظیم برائے انسانی حقوق  کے تابع اور اسکی اجازت سے مشروط ہو گا۔ تا کہ کسی بھی قسم کے منفی نتائج سے بچا جا سکے۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایسے دور کی ابتداء ہے جب مثبت سوچ اور ذہانت کو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی مدد سے 1 ہزار گنا بڑھایا جا سکے گا۔ نیورالنک کے بانی نے کہا کہ اس حوالے سے پائے جانیوالے تمام خدشات بےبنیاد۔ ہیں۔

مارکیٹ کا ردعمل

اجازت نامہ ملنے کے بعد ایلون مسک کی دیگر کمپنیوں TESLA اور SPACE X  کے علاوہ ٹوئٹر کی اسٹاک ویلیو میں بھی 1 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور عالمی اسٹاکس (Global Stocks)  میں مجموعی طور پر تیزی کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ آج ایشیائی مارکیٹس  Hang Seng اور Nikkei225 انڈییکسز میں ٹیسلا کی شیئرز ویلیو 8 ڈالرز اضافے سے 193.17 ڈالرز پر آ گئی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اسکی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 15 فیصد مستحکم ہوئی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button