PSX میں مندی پر اختتام، IMF پروگرام ختم ہونیکا خدشہ

PSX میں مندی کا رجحان دیکھا گیا جس کی بنیادی وجہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا IMF پروگرام ختم کرنے کے بارے میں بیان ہے۔ واضح رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کیلئے معاشی امداد کا پروگرام گذشتہ سال نومبر سے معطل کر رکھا ہے۔

اسحاق ڈار نے کیا بیان دیا اور PSX پر اسکے منفی اثرات کیوں مرتب ہوئے ؟

گذشتہ روز پاکستانی وزیر خزانہ نے اسلام آباد اور سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ ” ہم نے عالمی مالیاتی فنڈ کا پروگرام بحال کرنے کی تمام کوششیں کیں۔ پارلیمنٹ سے قانون سازی کے علاوہ دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تحریری ضمانتیں بھی دلوائیں۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر مطالبات کی فہرست طویل ہوتی چلی گئی”۔

انہوں نے یہ بھی کہا اسوقت مالی سال کے ساتھ IMF پروگرام بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اور پاکستان آئندہ عالمی ادارے کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائے گا بلکہ اپنے معاشی مسائل حل کرنے کیلئے دوست ممالک کے ساتھ متبادل لائحہ عمل اختیار کرے گا۔ ان کے بیان نے پاکستانی کیپیٹل مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کے اوسان خطا کر دیئے۔ جو کئی مہینوں سے نویں جائزے کی تکمیل اور معاشی بحالی کے منتظر تھے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے حالیہ عرصے کے دوران IMF کے رویے پر مایوس کا اظہار کرتے ہوئے کارپوریٹ سیکٹر کے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ انکا کہنا تھا کہ دوست ممالک کی طرف سے بیل آؤٹ پیکیجز مل جائیں گے جس سے ملک عالمی مالیاتی فنڈ کے بغیر بھی معاشی استحکام حاصل کر لے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ایسے حالات کا پہلی بار سامنا نہیں کر رہا بلکہ اس سے قبل بھی ان سے گذر چکا ہے۔

اسحاق ڈار نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پی۔ٹی۔آئی حکومت کا معطل شدہ پروگرام بحال کروانے کی بجائے نیا بیل آؤٹ پیکیج لینا چاہیئے تھا کیونکہ اس میں کئی ٹیکنیکی مسائل تھے۔

اس بیان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پاکستان کو اپنے معاشی مسائل حل کرنے کیلئے ایک دشوار گزار سفر کرنا پڑے گا جو کہ ان حالات میں اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی کساد بازاری (Recession) کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ عشروں ہر محیط تاریخی تعلقات رکھنے والے ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی ایک خاص حد سے زیادہ مدد نہ کر پائیں کیونکہ یوکرائن پر حملے کے بعد عالمی نظام زر بکھرنے کا رسک فیکٹر عالمی نظام رسد کو عدم استحکام کا شکار رکھے ہوئے ہے۔

تیل کی پیداوار اور قیمتیں بھی اتار چڑھاؤ کی شکار ہیں ان وجوہات کی بناء پر جغرافیائی تعلقات اور شراکت داریاں بھی بدل رہی ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال روائتی حریفوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کے زیر سایہ ناقابل یقین قربت، شام کی عرب لیگ میں واہسی اور کل تک خلیجی ممالک کو دھمکیاں دیتے ہوئے ترکی کے ان کے ساتھ معاشی تعاون کے معاہدے ہیں۔ عالمی تعلقات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ۔ لیکن پاکستان ابھی تک اہنے لئے قابل ذکر آپشنز تلاش نہیں کر پایا۔

پاکستان کے IMF پروگرام کی تاریخ

پاکستان انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ 1958ء سے لے کر 2022ء تک 64 سالوں میں 22 پروگرامز مکمل کر چکا ہے۔ تاہم موجودہ پروگرام مکمل نہ ہونے سے پاکستان اور مالیاتی فنڈ کے درمیان اعتماد میں مزید کمی آئے گی۔ اور اسے مستقبل میں معاشی امداد کے حصول کیلئے کڑی شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ IMF دراصل پاکستان کے سیاسی عدم استحکام پر نظر رکھے ہوئے ہے اور عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے ساتھ پائیدار اصلاحات پر مذاکرات کا خواہاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام مطالبات پورے کرنے کے باوجود بھی اسٹاف لیول معاہدہ نہیں کیا جا رہا۔ وہ بھی ایسے حالات میں جبکہ جنوبی ایشیائی ملک غیر ملکی زرمبادلہ کی شدید قلت کا شکار ہے اور اس پر دیوالیہ ہونے کے سائے منڈلا رہے ہیں۔

مارکیٹ کی صورتحال

آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں دن کا آغاز ملے جلے رجحان سے ہوا تاہم نماز جمعہ کے وقفے تک اسکا موڈ منفی ہو چکا تھا۔ دوسرے سیشن میں کسی حد مارکیٹ نے کھویا ہوا لیول اور انڈیکس بحال کیا۔ KSE100 میں دن کا اختتام 23 پوائنٹس کی کمی سے 41006 کی سطح پر ہوا۔ جبکہ اسکی ٹریڈنگ رینج 40783 سے 41148 کے درمیان رہی

۔ دوسری طرف KSE30 میں معاشی سرگرمیاں 28 پوائنٹس نیچے 14547 پر بند ہوئیں۔

 

کیپیٹل مارکیٹ میں 16 کروڑ 76 لاکھ شیئرز کا لین دین ہوا۔ جن کی مجموعی مالیت 6 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد رہی۔ شیئر بازار میں 325 کمپنیوں نے ٹریڈ میں حصہ لیا۔ جن میں دے 119 کی قدر میں تیزی، 176 میں مندی جبکہ 30 میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button